كِتَابُ المَغَازِي بَابُ غَزْوَةِ الطَّائِفِ فِي شَوَّالٍ سَنَةَ ثَمَانٍ، قَالَهُ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ صحيح حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ لَمَّا قَسَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِسْمَةَ حُنَيْنٍ قَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ مَا أَرَادَ بِهَا وَجْهَ اللَّهِ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ فَتَغَيَّرَ وَجْهُهُ ثُمَّ قَالَ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَى مُوسَى لَقَدْ أُوذِيَ بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ
کتاب: غزوات کے بیان میں
باب: غزوئہ طائف کا بیان جوشوال سنہ 8ھ میں ہوا ۔ یہ موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیاہے
ہم سے قبیصہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ، ان سے اعمش نے ، ان سے ابو وائل نے اور ان سے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حنین کے مال غنیمت کی تقسیم کر رہے تھے تو انصار کے ایک شخص نے ( جو منافق تھا ) کہا کہ اس تقسیم میں اللہ کی خوشنودی کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا ہے ۔ میں نے رسول اکرم اکی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو اس بدگو کی اطلا ع دی تو آپ کے چہر ہ مبارک کا رنگ بدل گیا پھر آپ نے فرمایا ، اللہ تعا لیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم فر ما ئے ، انہیں اس سے بھی زیادہ دکھ پہنچا یا گیا پس انہوں نے صبر کیا ۔
تشریح :
حضرت موسی علیہ السلام کے مزاج میں شرم اور حیاتھی ۔ وہ چھپ کر تنہا ئی میں نہایا کرتے تھے ۔ بنی اسرائیل کو یہ شگوفہ ہاتھ آیا ۔ کسی نے کہا کہ ان کے خصےے بڑھ گئے ہیں ۔ کسی نے کہا، ان کو بر ص ہو گیا ہے ۔ اس قسم کے بہتان لگانے شروع کئے ۔ آخر اللہ تعالی نے ان کی پاکی اور بے عیبی ظاہر کردی۔ یہ قصہ قرآن شریف میں مذکور ہے یاَیُّھَا الَّذِینَ ا مَنُو الَاتَکُونُوا کَا الَّذِینَ ا ذَوا مُوسی ( الاحزاب : 69 ) آخر تک ۔ روایت میں جس منافق کا ذکر مذکور ہے ۔ اس کم بخت نے اتنا غور نہیں کیا کہ دنیا کا مال ودولت اسباب سب پرور دگار کی ملک ہیں جس پیغمبر کو اللہ تعالی نے اپنا رسول بناکر دنیا میں بھیج دیا اس کو پورا اختیار ہے کہ جیسی مصلحت ہو اسی طرح دنیا کا مال تقسیم کرے ۔ اللہ کی رضا مندی کا خیال جتنا اس کے پیغمبر کو ہوگا ، اس کا عشر عشیر بھی اور وں کو نہیں ہو سکتا ۔ بد باطن قسم کے لوگوں کا شیوہ ہی یہ رہاہے کہ خواہ مخواہ دوسروں پر الزام بازی کرتے رہتے ہیں اور اپنے عیوب پر کبھی نظر نہیں جاتی ۔ سند میں حضرت سفیان ثوری کا نام آیا ہے ۔ یہ کوفی ہیں اپنے زمانہ میں فقہ اور اجتہاد کے جامع تھے ۔ خصوصاً علم حدیث میں مرجع تھے ۔ ان کاثقہ، زاہد اور عابد ہونا مسلم ہے ۔ ان کو اسلام کا قطب کہا گیا ہے ۔ ائمہ مجتہدین میں ان کا شما ر ہے ۔ سنہ 99 ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ 161 ھ میں بصرہ میں وفات پائی ، حشرنا اللہ معہم آمین۔
حضرت موسی علیہ السلام کے مزاج میں شرم اور حیاتھی ۔ وہ چھپ کر تنہا ئی میں نہایا کرتے تھے ۔ بنی اسرائیل کو یہ شگوفہ ہاتھ آیا ۔ کسی نے کہا کہ ان کے خصےے بڑھ گئے ہیں ۔ کسی نے کہا، ان کو بر ص ہو گیا ہے ۔ اس قسم کے بہتان لگانے شروع کئے ۔ آخر اللہ تعالی نے ان کی پاکی اور بے عیبی ظاہر کردی۔ یہ قصہ قرآن شریف میں مذکور ہے یاَیُّھَا الَّذِینَ ا مَنُو الَاتَکُونُوا کَا الَّذِینَ ا ذَوا مُوسی ( الاحزاب : 69 ) آخر تک ۔ روایت میں جس منافق کا ذکر مذکور ہے ۔ اس کم بخت نے اتنا غور نہیں کیا کہ دنیا کا مال ودولت اسباب سب پرور دگار کی ملک ہیں جس پیغمبر کو اللہ تعالی نے اپنا رسول بناکر دنیا میں بھیج دیا اس کو پورا اختیار ہے کہ جیسی مصلحت ہو اسی طرح دنیا کا مال تقسیم کرے ۔ اللہ کی رضا مندی کا خیال جتنا اس کے پیغمبر کو ہوگا ، اس کا عشر عشیر بھی اور وں کو نہیں ہو سکتا ۔ بد باطن قسم کے لوگوں کا شیوہ ہی یہ رہاہے کہ خواہ مخواہ دوسروں پر الزام بازی کرتے رہتے ہیں اور اپنے عیوب پر کبھی نظر نہیں جاتی ۔ سند میں حضرت سفیان ثوری کا نام آیا ہے ۔ یہ کوفی ہیں اپنے زمانہ میں فقہ اور اجتہاد کے جامع تھے ۔ خصوصاً علم حدیث میں مرجع تھے ۔ ان کاثقہ، زاہد اور عابد ہونا مسلم ہے ۔ ان کو اسلام کا قطب کہا گیا ہے ۔ ائمہ مجتہدین میں ان کا شما ر ہے ۔ سنہ 99 ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ 161 ھ میں بصرہ میں وفات پائی ، حشرنا اللہ معہم آمین۔