‌صحيح البخاري - حدیث 4333

كِتَابُ المَغَازِي بَابُ غَزْوَةِ الطَّائِفِ فِي شَوَّالٍ سَنَةَ ثَمَانٍ، قَالَهُ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ صحيح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا أَزْهَرُ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ أَنْبَأَنَا هِشَامُ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ حُنَيْنٍ الْتَقَى هَوَازِنُ وَمَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشَرَةُ آلَافٍ وَالطُّلَقَاءُ فَأَدْبَرُوا قَالَ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ قَالُوا لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ لَبَّيْكَ نَحْنُ بَيْنَ يَدَيْكَ فَنَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ فَانْهَزَمَ الْمُشْرِكُونَ فَأَعْطَى الطُّلَقَاءَ وَالْمُهَاجِرِينَ وَلَمْ يُعْطِ الْأَنْصَارَ شَيْئًا فَقَالُوا فَدَعَاهُمْ فَأَدْخَلَهُمْ فِي قُبَّةٍ فَقَالَ أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالشَّاةِ وَالْبَعِيرِ وَتَذْهَبُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا وَسَلَكَتْ الْأَنْصَارُ شِعْبًا لَاخْتَرْتُ شِعْبَ الْأَنْصَارِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4333

کتاب: غزوات کے بیان میں باب: غزوئہ طائف کا بیان جوشوال سنہ 8ھ میں ہوا ۔ یہ موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیاہے ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے بیان کیا ، کہا ہم سے ازہر بن سعد سمان نے بیان کیااور ان سے عبد اللہ بن عون نے ، انہیں ہشام بن زید بن انس نے خبر دی اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ غزوئہ حنین میں جب قبیلہ ہوازن سے جنگ شر وع ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار فوج تھی ۔ قریش کے وہ لوگ بھی ساتھ تھے جنہیں فتح مکہ کے بعد آنحضور انے چھوڑ دیا تھا پھر سب نے پیٹھ پھیر لی ۔ حضور انے پکارا ، اے انصاریو ! انہوں نے جواب دیا کہ ہم حاضر ہیں ، یارسول اللہ ! آپ کے ہر حکم کی تعمیل کے لیے ہم حاضر ہیں ۔ ہم آپ کے سامنے ہیں ۔ پھر حضور ااپنی سواری سے اتر گئے اور آپ نے فرمایا کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں پھر مشرکین کی ہار ہوگئی ۔ جن لوگوں کو حضور انے فتح مکہ کے بعد چھوڑ دیا تھا اور مہاجرین کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا لیکن انصار کو کچھ نہیں دیا ۔ اس پر انصار رضی اللہ عنہم نے اپنے غم کا اظہار کیاتو آپ نے انہیں بلایا اورایک خیمہ میں جمع کیا پھر فرمایا کہ تم اس پر راضی نہیں ہوکہ دوسرے لوگ بکری اور اونٹ اپنے ساتھ لے جائیں اورتم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ لے جاؤ ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگر لوگ کسی وادی یا گھاٹی میں چلیں اور انصار دوسری گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی گھاٹی میں چلنا پسند کروں گا ۔
تشریح : روایت میں طلقاءسے مراد وہ لوگ ہیں جن کو آپ نے فتح مکہ کے دن چھوڑدیا ( احساناً ) ان کے پہلے جرائم پر ان سے کوئی گرفت نہیں کی جیسے ابو سفیان ، ان کے بیٹے معاویہ، حکیم بن حزام رضی اللہ عنہم وغیرہ۔ ان لوگوں کو عام معافی دے دی گئی اور ان کو بہت نوازا بھی گیا۔ بعد میں یہ حضرات اسلام کے سچے جانثار مددگار ثابت ہوئے اور کانہ ولی حمیم کا نمونہ بن گئے۔ انصار کے لیے آپ نے جو شرف عطا فرمایا دنیا کا مال ودولت اس کے مقابلہ پر ایک بال برابر بھی وزن نہیں رکھتا تھا۔ چنانچہ انصار نے بھی اس کو سمجھا اور اس شرف کی قدر کی اور اول سے آخر تک آپ کے ساتھ پوری وفاداری کابرتاؤ کیا، رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ اسی کا نتیجہ تھا کہ وفات نبوی کے بعد جملہ انصار نے بخوشی ورغبت خلفائے قریش کی اطاعت کو قبول کیا اور اپنے لیے کوئی منصب نہیں چاہا۔ صدقوا ماعاہدواا للہ علیہ، جنگ حنین میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کی لگام تھامے ہوئے تھے ۔ روایت میں طلقاءسے مراد وہ لوگ ہیں جن کو آپ نے فتح مکہ کے دن چھوڑدیا ( احساناً ) ان کے پہلے جرائم پر ان سے کوئی گرفت نہیں کی جیسے ابو سفیان ، ان کے بیٹے معاویہ، حکیم بن حزام رضی اللہ عنہم وغیرہ۔ ان لوگوں کو عام معافی دے دی گئی اور ان کو بہت نوازا بھی گیا۔ بعد میں یہ حضرات اسلام کے سچے جانثار مددگار ثابت ہوئے اور کانہ ولی حمیم کا نمونہ بن گئے۔ انصار کے لیے آپ نے جو شرف عطا فرمایا دنیا کا مال ودولت اس کے مقابلہ پر ایک بال برابر بھی وزن نہیں رکھتا تھا۔ چنانچہ انصار نے بھی اس کو سمجھا اور اس شرف کی قدر کی اور اول سے آخر تک آپ کے ساتھ پوری وفاداری کابرتاؤ کیا، رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ اسی کا نتیجہ تھا کہ وفات نبوی کے بعد جملہ انصار نے بخوشی ورغبت خلفائے قریش کی اطاعت کو قبول کیا اور اپنے لیے کوئی منصب نہیں چاہا۔ صدقوا ماعاہدواا للہ علیہ، جنگ حنین میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کی لگام تھامے ہوئے تھے ۔