كِتَابُ المَغَازِي بَابُ غَزْوَةِ الطَّائِفِ فِي شَوَّالٍ سَنَةَ ثَمَانٍ، قَالَهُ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ صحيح حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا هِشَامٌ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ نَاسٌ مِنْ الْأَنْصَارِ حِينَ أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَفَاءَ مِنْ أَمْوَالِ هَوَازِنَ فَطَفِقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِي رِجَالًا الْمِائَةَ مِنْ الْإِبِلِ فَقَالُوا يَغْفِرُ اللَّهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِي قُرَيْشًا وَيَتْرُكُنَا وَسُيُوفُنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَائِهِمْ قَالَ أَنَسٌ فَحُدِّثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَقَالَتِهِمْ فَأَرْسَلَ إِلَى الْأَنْصَارِ فَجَمَعَهُمْ فِي قُبَّةٍ مِنْ أَدَمٍ وَلَمْ يَدْعُ مَعَهُمْ غَيْرَهُمْ فَلَمَّا اجْتَمَعُوا قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا حَدِيثٌ بَلَغَنِي عَنْكُمْ فَقَالَ فُقَهَاءُ الْأَنْصَارِ أَمَّا رُؤَسَاؤُنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَلَمْ يَقُولُوا شَيْئًا وَأَمَّا نَاسٌ مِنَّا حَدِيثَةٌ أَسْنَانُهُمْ فَقَالُوا يَغْفِرُ اللَّهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِي قُرَيْشًا وَيَتْرُكُنَا وَسُيُوفُنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَائِهِمْ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنِّي أُعْطِي رِجَالًا حَدِيثِي عَهْدٍ بِكُفْرٍ أَتَأَلَّفُهُمْ أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالْأَمْوَالِ وَتَذْهَبُونَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى رِحَالِكُمْ فَوَاللَّهِ لَمَا تَنْقَلِبُونَ بِهِ خَيْرٌ مِمَّا يَنْقَلِبُونَ بِهِ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ رَضِينَا فَقَالَ لَهُمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَتَجِدُونَ أُثْرَةً شَدِيدَةً فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْا اللَّهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنِّي عَلَى الْحَوْضِ قَالَ أَنَسٌ فَلَمْ يَصْبِرُوا
کتاب: غزوات کے بیان میں
باب: غزوئہ طائف کا بیان جوشوال سنہ 8ھ میں ہوا ۔ یہ موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیاہے
مجھ سے عبد اللہ بن محمد نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا ، انہیں معمر نے خبر دی ، ان سے زہری نے بیان کیا اور انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی ، بیان کیا کہ جب قبیلہ ہوازن کے مال میں سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو جو دینا تھاوہ دیا تو انصار کے کچھ لوگو ں کو رنج ہوا کیونکہ آن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو سو سو اونٹ دے دئے تھے کچھ لوگوں نے کہا کہ اللہ اپنے رسول ا کی مغفرت کرے ، قریش کو تو آپ عنایت فرمارہے ہیں اور ہم کوآپ نے چھوڑ دیا ہے حالا نکہ ہما ری تلواروں سے ان کا خون ٹپک رہا ہے ۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ انصار کی یہ بات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کانوں میں آئی تو آپ نے انہیں بلا بھیجا اور چمڑے کے ایک خیمے میں انہیں جمع کیا ، ان کے ساتھ ان کے علاوہ کسی کو بھی آپ نے نہیں بلایا تھا ، جب سب لوگ جمع ہو گئے تو آپ ا کھڑے ہوئے اورآپ نے فرمایا تمہا ری جو بات مجھے معلوم ہوئی ہے کیا وہ صحیح ہے ؟ انصار کے جو سمجھدار لوگ تھے انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ! جو لوگ ہمارے معزز اور سردا رہیں ، انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی ہے ۔ البتہ ہمارے کچھ لوگ جو ابھی نوعمر ہیں ، انہوں نے کہا ہے کہ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مغفرت کرے ، قریش کو آپ دے رہے ہیں اور ہمیں آپ نے چھوڑ دیا ہے حالانکہ ہما ری تلواروں سے ان کا خون ٹپک رہا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا میں ایسے لوگوں کو دیتا ہوں جوابھی نئے نئے اسلام میں داخل ہوے ہیں ، اس طرح میں ان کی دل جوئی کر تا ہوں ۔ کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ دوسرے لوگ تو مال ودولت لے جا ئیں اور تم نبی ا کواپنے ساتھ اپنے گھر لے جاؤ ۔ خدا کی قسم کہ جو چیز تم اپنے ساتھ لے جاؤگے وہ اس سے بہتر ہے جو وہ لے جارہے ہیں ۔ انصار نے عرض کیا یارسول اللہ ! ہم اس پر راضی ہیں ۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بعد تم دیکھوگے کہ تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی ۔ اس وقت صبر کر نا ، یہاں تک کہ اللہ اور اس کے رسول ا سے آملو ۔ میں حوض کوثر پر ملوں گا ۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا لیکن انصار نے صبر نہیں کیا ۔
تشریح :
حضرت انس رضی اللہ عنہ کا اشارہ غالباًسردار انصار حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی طرف ہے ، جنہوں نے وفات نبوی کے بعد منا امیر ومنکم امیر کی آواز اٹھائی تھی مگر جمہور انصار نے اس سے موافقت نہیں کی اور خلفائے قریش کو تسلیم کر لیا۔ رضی اللہ عنہم ورضو اعنہ۔
سند میں حضرت ہشام بن عروہ کا نام آیا ہے ۔ یہ مدینہ کے مشہور تابعین میں سے ہیں جن کا شمار اکابر علماءمیں ہوتا ہے۔ سنہ61ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ146ھ میں بمقام بغداد انتقال ہوا۔ امام زہری بھی مدینہ کے مشہور جلیل القدر تابعی ہیں ۔ زہری بن کلاب کی طرف منسوب ہیں کنیت ابو بکر نام محمد بن عبد اللہ بن شہاب ہے، وقت کے بہت بڑے عالم باللہ تھے۔ ماہ رمضان سنہ124ھ میں وفات پائی۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کا اشارہ غالباًسردار انصار حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی طرف ہے ، جنہوں نے وفات نبوی کے بعد منا امیر ومنکم امیر کی آواز اٹھائی تھی مگر جمہور انصار نے اس سے موافقت نہیں کی اور خلفائے قریش کو تسلیم کر لیا۔ رضی اللہ عنہم ورضو اعنہ۔
سند میں حضرت ہشام بن عروہ کا نام آیا ہے ۔ یہ مدینہ کے مشہور تابعین میں سے ہیں جن کا شمار اکابر علماءمیں ہوتا ہے۔ سنہ61ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ146ھ میں بمقام بغداد انتقال ہوا۔ امام زہری بھی مدینہ کے مشہور جلیل القدر تابعی ہیں ۔ زہری بن کلاب کی طرف منسوب ہیں کنیت ابو بکر نام محمد بن عبد اللہ بن شہاب ہے، وقت کے بہت بڑے عالم باللہ تھے۔ ماہ رمضان سنہ124ھ میں وفات پائی۔