كِتَابُ المَغَازِي بَابُ غَزْوَةِ الطَّائِفِ فِي شَوَّالٍ سَنَةَ ثَمَانٍ، قَالَهُ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ صحيح حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَاصِمٍ قَالَ لَمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ قَسَمَ فِي النَّاسِ فِي الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَلَمْ يُعْطِ الْأَنْصَارَ شَيْئًا فَكَأَنَّهُمْ وَجَدُوا إِذْ لَمْ يُصِبْهُمْ مَا أَصَابَ النَّاسَ فَخَطَبَهُمْ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ أَلَمْ أَجِدْكُمْ ضُلَّالًا فَهَدَاكُمْ اللَّهُ بِي وَكُنْتُمْ مُتَفَرِّقِينَ فَأَلَّفَكُمْ اللَّهُ بِي وَعَالَةً فَأَغْنَاكُمْ اللَّهُ بِي كُلَّمَا قَالَ شَيْئًا قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمَنُّ قَالَ مَا يَمْنَعُكُمْ أَنْ تُجِيبُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كُلَّمَا قَالَ شَيْئًا قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمَنُّ قَالَ لَوْ شِئْتُمْ قُلْتُمْ جِئْتَنَا كَذَا وَكَذَا أَتَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالشَّاةِ وَالْبَعِيرِ وَتَذْهَبُونَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى رِحَالِكُمْ لَوْلَا الْهِجْرَةُ لَكُنْتُ امْرَأً مِنْ الْأَنْصَارِ وَلَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا وَشِعْبًا لَسَلَكْتُ وَادِيَ الْأَنْصَارِ وَشِعْبَهَا الْأَنْصَارُ شِعَارٌ وَالنَّاسُ دِثَارٌ إِنَّكُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِي أُثْرَةً فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْنِي عَلَى الْحَوْضِ
کتاب: غزوات کے بیان میں
باب: غزوئہ طائف کا بیان جوشوال سنہ 8ھ میں ہوا ۔ یہ موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیاہے
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا ، ان سے عمر و بن یحییٰ نے ، ان سے عباد بن تمیم نے ، ان سے عبد اللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ غزوئہ حنین کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو جو غنیمت دی تھی آپ نے اس کی تقسیم کمزور ایمان کے لوگوں میں ( جوفتح مکہ کے بعد ایمان لائے تھے ) کر دی اور انصار کو اس میں سے کچھ نہیں دیا ۔ اس کا انہیں کچھ ملال ہواکہ وہ مال جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں کو دیا انہیں کیوں نہیں دیا ۔ آ پ نے اس کے بعد انہیں خطاب کیا اور فرمایا اے انصاریو ! کیا میں نے تمہیں گمراہ نہیں پایا تھاپھر تم کو میرے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت نصیب کی اور تم میں آپس میں دشمنی اور نااتفاقی تھی تو اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ تم میں باہم الفت پیدا کی اور تم محتاج تھے اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ غنی کیا ۔ آپ کے ایک ایک جملے پر انصار کہتے جاتے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول کے ہم سب سے زیادہ احسان مند ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری باتوں کا جواب دینے سے تمہیں کیا چیز مانع رہی ؟ بیان کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر اشارہ پر انصار عرض کرتے جاتے کہ اللہ اور اس کے رسول کے ہم سب سے زیا دہ احسان مند ہیںپھر حضورا نے فرمایا کہ اگر تم چاہتے تو مجھ سے اس طرح بھی کہہ سکتے تھے ( کہ آپ آئے تو لوگ آپ کو جھٹلا رہے تھے ، لیکن ہم نے آپ کی تصدیق کی وغیرہ ) کیا تم اس پر خوش نہیں ہوکہ جب لوگ اونٹ اور بکریاں لے جارہے ہوں تو تم اپنے گھروں کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے جاؤ ؟ اگر ہجرت کی فضیلت نہ ہوتی تو میں بھی انصار کا ایک آدمی ہوتا ۔ لوگ خواہ کسی گھاٹی یا وادی میں چلیں ، میں تو انصار کی گھاٹی اور وادی میں چلوںگا ۔ انصار استر کی طرح ہیں جو جسم سے ہمیشہ لگا رہتا ہے اور دوسرے لوگ اوپر کے کپڑے یعنی ابرہ کی طرح ہیں ۔ تم لوگ ( انصا ر ) دیکھوگے کہ میرے بعد تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی ۔ تم ایسے وقت میں صبر کر نا یہاں تک کہ مجھ سے حوض پر آملو ۔
تشریح :
اس حدیث کی سند میں حضرت عبد اللہ بن زید بن عاصم زمانی کا ذکر ہے جو مشہور صحابی ہیں ۔ کہتے ہیں مسیلمہ کذاب کو انہوں نے ہی ماراتھا۔ یہ واقعہ حرہ سنہ63 ھ میں یزید کی فوج کے ہاتھ سے شہید ہوئے۔ روایت میں آنحضرت ا کے مال کے تقسیم کر نے کا ذکر ہے۔ آپ نے یہ مال قریش کے ان لوگو ں کو دیا تھاجو نومسلم تھے ، ابھی ان کا اسلام مضبوط نہیں ہوا تھا، جیسے ابوسفیان ، سہیل ، حویطب ، حکیم بن حزام ، ابو السنابل، صفوان بن امیہ ، عبد الرحمن بن یربوع وغیرہ۔ شعار سے مراد استر میں سے نیچے کا کپڑا اور دثار سے ابرہ یعنی اوپر کا کپڑا مرد ہے ۔ انصار کے لیے آپ نے یہ شرف عطا فرمایا کہ ان کو ہر وقت اپنے جسم مبارک سے لگے ہوئے کپڑے کے مثل قرار دیا۔ فی الواقع قیامت تک کے لیے یہ شرف انصار مدینہ کو حاصل ہے کہ آپ ان کے شہر میں آرام فرما رہے ہیں ۔ ( ا ) ۔
اس حدیث کی سند میں حضرت عبد اللہ بن زید بن عاصم زمانی کا ذکر ہے جو مشہور صحابی ہیں ۔ کہتے ہیں مسیلمہ کذاب کو انہوں نے ہی ماراتھا۔ یہ واقعہ حرہ سنہ63 ھ میں یزید کی فوج کے ہاتھ سے شہید ہوئے۔ روایت میں آنحضرت ا کے مال کے تقسیم کر نے کا ذکر ہے۔ آپ نے یہ مال قریش کے ان لوگو ں کو دیا تھاجو نومسلم تھے ، ابھی ان کا اسلام مضبوط نہیں ہوا تھا، جیسے ابوسفیان ، سہیل ، حویطب ، حکیم بن حزام ، ابو السنابل، صفوان بن امیہ ، عبد الرحمن بن یربوع وغیرہ۔ شعار سے مراد استر میں سے نیچے کا کپڑا اور دثار سے ابرہ یعنی اوپر کا کپڑا مرد ہے ۔ انصار کے لیے آپ نے یہ شرف عطا فرمایا کہ ان کو ہر وقت اپنے جسم مبارک سے لگے ہوئے کپڑے کے مثل قرار دیا۔ فی الواقع قیامت تک کے لیے یہ شرف انصار مدینہ کو حاصل ہے کہ آپ ان کے شہر میں آرام فرما رہے ہیں ۔ ( ا ) ۔