‌صحيح البخاري - حدیث 4328

كِتَابُ المَغَازِي بَابُ غَزْوَةِ الطَّائِفِ فِي شَوَّالٍ سَنَةَ ثَمَانٍ، قَالَهُ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ نَازِلٌ بِالْجِعْرَانَةِ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ وَمَعَهُ بِلَالٌ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ أَلَا تُنْجِزُ لِي مَا وَعَدْتَنِي فَقَالَ لَهُ أَبْشِرْ فَقَالَ قَدْ أَكْثَرْتَ عَلَيَّ مِنْ أَبْشِرْ فَأَقْبَلَ عَلَى أَبِي مُوسَى وَبِلَالٍ كَهَيْئَةِ الْغَضْبَانِ فَقَالَ رَدَّ الْبُشْرَى فَاقْبَلَا أَنْتُمَا قَالَا قَبِلْنَا ثُمَّ دَعَا بِقَدَحٍ فِيهِ مَاءٌ فَغَسَلَ يَدَيْهِ وَوَجْهَهُ فِيهِ وَمَجَّ فِيهِ ثُمَّ قَالَ اشْرَبَا مِنْهُ وَأَفْرِغَا عَلَى وُجُوهِكُمَا وَنُحُورِكُمَا وَأَبْشِرَا فَأَخَذَا الْقَدَحَ فَفَعَلَا فَنَادَتْ أُمُّ سَلَمَةَ مِنْ وَرَاءِ السِّتْرِ أَنْ أَفْضِلَا لِأُمِّكُمَا فَأَفْضَلَا لَهَا مِنْهُ طَائِفَةً

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4328

کتاب: غزوات کے بیان میں باب: غزوئہ طائف کا بیان جوشوال سنہ 8ھ میں ہوا ۔ یہ موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیاہے ہم سے محمد بن علاءنے بیان کیا ، کہا ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا ، ان سے برید بن عبد اللہ نے ، ان سے ابو بردہ نے اور ان سے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہی تھا جب آپ جعرانہ سے ، جو مکہ اور مدینہ کے درمیان میں ایک مقام ہے اتر رہے تھے ۔ آپ کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ تھے ۔ اسی عرصے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بدوی آیا اور کہنے لگاکہ آپ نے جو مجھ سے وعدہ کیا ہے وہ پورا کیوں نہیں کرتے ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں بشارت ہو ۔ اس پر وہ بدوی بولا بشارت تو آپ مجھے بہت دے چکے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرہ مبارک ابوموسیٰ اور بلال کی طرف پھیرا ، آ پ بہت غصے میں معلوم ہورہے تھے ۔ آپ نے فرمایا اس نے بشارت واپس کردی اب تم دونوں اسے قبول کرلو ۔ ان دو نوں حضرات نے عرض کیا کہ ہم نے قبول کیا ۔ پھر آپ نے پانی کا ایک پیالہ طلب فرمایا اور اپنے دونوں ہاتھوں اور چہرے کو اس میں دھویا اور اسی میں کلی کی اور ( ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور بلال رضی اللہ عنہ ہردوسے ) فرمایا کہ اس کا پانی پی لو اور اپنے چہروں اور سینوں پر اسے ڈال لو اور بشارت حاصل کرو ۔ ان دونوں نے پیالہ لے لیا اور ہدایت کے مطابق عمل کیا ۔ پردہ کے پیچھے سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بھی کہااپنی ماں کے لیے بھی کچھ چھوڑ دینا ۔ چنانچہ ان ہر دو نے ان کے لیے ایک حصہ چھوڑ دیا ۔
تشریح : اس حدیث کی باب سے مناسبت اس فقرے سے نکلتی ہے کہ آپ جعرانہ میں اترے ہوئے تھے کیونکہ جعرانہ میں آپ غزوہ طائف میں ٹھہرے تھے۔ بدوی کو آنحضرت ا نے شاید کچھ روپے پیسے یا مال غنیمت دینے کا وعدہ فرمایا ہوگاجب وہ تقاضا کرنے آیا تو آپ نے فرمایا مال کی کیا حقیقت ہے جنت تجھ کو مبارک ہو لیکن بدقسمتی سے وہ بے ادب گنوار اس بشارت پر خوش نہ ہوا۔ آپ نے اس کی طرف سے منہ پھیرلیااور ابو موسی رضی اللہ عنہ اوربلال رضی اللہ عنہ کو یہ نعمت سرفراز فرمائی سچ ہے تہی دستان قسمت راچہ سود ازرہبر کامل کہ خضر از آب حیوان تشنہ می آرد سکندر را۔ جعرانہ کو مکہ اور مدینہ کے درمیا ن کہنا راوی کا بھول ہے۔ جعرانہ مکہ اور طائف کے درمیان واقع ہے۔ سنہ 70 ءکے حج میں جعرانہ جانے اور اس تاریخی جگہ کو دیکھنے کا شرف مجھ کو بھی حاصل ہے۔ ( راز ) اس حدیث کی باب سے مناسبت اس فقرے سے نکلتی ہے کہ آپ جعرانہ میں اترے ہوئے تھے کیونکہ جعرانہ میں آپ غزوہ طائف میں ٹھہرے تھے۔ بدوی کو آنحضرت ا نے شاید کچھ روپے پیسے یا مال غنیمت دینے کا وعدہ فرمایا ہوگاجب وہ تقاضا کرنے آیا تو آپ نے فرمایا مال کی کیا حقیقت ہے جنت تجھ کو مبارک ہو لیکن بدقسمتی سے وہ بے ادب گنوار اس بشارت پر خوش نہ ہوا۔ آپ نے اس کی طرف سے منہ پھیرلیااور ابو موسی رضی اللہ عنہ اوربلال رضی اللہ عنہ کو یہ نعمت سرفراز فرمائی سچ ہے تہی دستان قسمت راچہ سود ازرہبر کامل کہ خضر از آب حیوان تشنہ می آرد سکندر را۔ جعرانہ کو مکہ اور مدینہ کے درمیا ن کہنا راوی کا بھول ہے۔ جعرانہ مکہ اور طائف کے درمیان واقع ہے۔ سنہ 70 ءکے حج میں جعرانہ جانے اور اس تاریخی جگہ کو دیکھنے کا شرف مجھ کو بھی حاصل ہے۔ ( راز )