كِتَابُ المَغَازِي بَابُ غَزْوَةِ الطَّائِفِ فِي شَوَّالٍ سَنَةَ ثَمَانٍ، قَالَهُ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ صحيح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي العَبَّاسِ الشَّاعِرِ الأَعْمَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: لَمَّا حَاصَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الطَّائِفَ، فَلَمْ يَنَلْ مِنْهُمْ شَيْئًا، قَالَ: «إِنَّا قَافِلُونَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ». فَثَقُلَ عَلَيْهِمْ، وَقَالُوا: نَذْهَبُ وَلاَ نَفْتَحُهُ، وَقَالَ مَرَّةً: «نَقْفُلُ». فَقَالَ: «اغْدُوا عَلَى القِتَالِ». فَغَدَوْا فَأَصَابَهُمْ جِرَاحٌ، فَقَالَ: «إِنَّا قَافِلُونَ غَدًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ». فَأَعْجَبَهُمْ، فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً، فَتَبَسَّمَ، قَالَ: قَالَ الحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الخَبَرَ كُلَّهُ
کتاب: غزوات کے بیان میں
باب: غزوئہ طائف کا بیان جوشوال سنہ 8ھ میں ہوا ۔ یہ موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیاہے
ہم سے علی بن عبد اللہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، ان سے عمر وبن دینار نے ، ان سے ابو العباس نابینا شاعر نے اور ان سے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ، انہوں نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا محاصرہ کیا تو دشمن کا کچھ بھی نقصان نہیں کیا ۔ آخر آپ نے فرمایا کہ اب ان شاءاللہ ہم واپس ہوجائیںگے ۔ مسلمانوں کے لیے ناکام لوٹنا بڑا شاق گذرا ۔ انہوں نے کہا کہ واہ بغیر فتح کے ہم واپس چلے جائیں ( راوی نے ) ایک مرتبہ ( نذھب ) کے بجائے ( نقفل کا لفظ استعمال کیا یعنی ہم ۔ ۔ ۔ لوٹ جائیں اور طائف کو فتح نہ کریں ( یہ کیونکرہو سکتا ہے ) اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر صبح سویرے میدان میں جنگ کے لیے آجاؤ ۔ پس وہ صحابہ سویرے ہی آگئے لیکن ان کی بڑی تعداد زخمی ہوگئی ۔ اب پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان شاءاللہ ہم کل واپس چلیں گے ۔ صحابہ نے اسے بہت پسند کیا ۔ آن حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ہنس پڑے ۔ اور سفیان نے ایک مرتبہ بیان کیاکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دئے ۔ حمیدی نے کہاکہ ہم سے سفیان نے یہ پوری خبر بیان کی ۔
تشریح :
اس جنگ میں الٹا مسلمانوں ہی کا نقصان ہوا کیونکہ طائف والے قلعہ کے اندر تھے اور ایک برس کا ذخیرہ انہوں نے اس کے اندر رکھ لیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اٹھارہ دن یا پچیس دن یا اور کم وبیش اس کا محاصرہ کئے رہے۔ کا فر قلعہ کے اندر سے مسلمانوں پر تیر برساتے رہے، لوہے کے ٹکڑے گرم کر کرکے پھینکتے جس سے کئی مسلمان شہید ہوگئے۔ آپ نے نوفل بن معاویہ رضی اللہ عنہ سے مشورہ کیا ، انہوں نے کہا یہ لوگ لومڑی کی طرح ہیں جو اپنے بل میں گھس گئی ہے۔ اگر آپ یہاں ٹھہرے رہیں گے تو لومڑی پکڑ پائیں گے اگر چھوڑ دیں گے تو لومڑی آپ کا کچھ نقصان نہیں کر سکتی۔ ( وحیدی )
اس جنگ میں الٹا مسلمانوں ہی کا نقصان ہوا کیونکہ طائف والے قلعہ کے اندر تھے اور ایک برس کا ذخیرہ انہوں نے اس کے اندر رکھ لیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اٹھارہ دن یا پچیس دن یا اور کم وبیش اس کا محاصرہ کئے رہے۔ کا فر قلعہ کے اندر سے مسلمانوں پر تیر برساتے رہے، لوہے کے ٹکڑے گرم کر کرکے پھینکتے جس سے کئی مسلمان شہید ہوگئے۔ آپ نے نوفل بن معاویہ رضی اللہ عنہ سے مشورہ کیا ، انہوں نے کہا یہ لوگ لومڑی کی طرح ہیں جو اپنے بل میں گھس گئی ہے۔ اگر آپ یہاں ٹھہرے رہیں گے تو لومڑی پکڑ پائیں گے اگر چھوڑ دیں گے تو لومڑی آپ کا کچھ نقصان نہیں کر سکتی۔ ( وحیدی )