كِتَابُ المَغَازِي بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَيَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمْ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُدْبِرِينَ ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ إِلَى قَوْلِهِ غَفُورٌ رَحِيمٌ صحيح وقال الليث حدثني يحيى بن سعيد، عن عمر بن كثير بن أفلح، عن أبي محمد، مولى أبي قتادة أن أبا قتادة، قال لما كان يوم حنين نظرت إلى رجل من المسلمين يقاتل رجلا من المشركين، وآخر من المشركين يختله من ورائه ليقتله، فأسرعت إلى الذي يختله فرفع يده ليضربني، وأضرب يده، فقطعتها، ثم أخذني، فضمني ضما شديدا حتى تخوفت، ثم ترك فتحلل، ودفعته ثم قتلته، وانهزم المسلمون، وانهزمت معهم، فإذا بعمر بن الخطاب في الناس، فقلت له ما شأن الناس قال أمر الله، ثم تراجع الناس إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم من أقام بينة على قتيل قتله فله سلبه . فقمت لألتمس بينة على قتيلي، فلم أر أحدا يشهد لي فجلست، ثم بدا لي، فذكرت أمره لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال رجل من جلسائه سلاح هذا القتيل الذي يذكر عندي فأرضه منه. فقال أبو بكر كلا لا يعطه أصيبغ من قريش، ويدع أسدا من أسد الله يقاتل عن الله ورسوله صلى الله عليه وسلم قال فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فأداه إلى، فاشتريت منه خرافا فكان أول مال تأثلته في الإسلام.
کتاب: غزوات کے بیان میں
باب: جنگ حنین کا بیان۔۔۔۔
اور لیث بن سعدنے بیان کیا ، مجھ سے یحییٰ بن سعید انصاری نے بیان کیاتھا کہ ان سے عمر بن کثیر بن افلح نے ، ان سے ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کے مولیٰ ابو محمد نے کہ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ، غزوئہ حنین کے دن میں نے ایک مسلمان کو دیکھاکہ ایک مشرک سے لڑرہا تھا اور ایک دوسرا مشرک پیچھے سے مسلمان کو قتل کرنے کی گھات میں تھا ، پہلے تو میں اسی کی طرف پڑھا ، اس نے اپنا ہاتھ مجھے مارنے کے لیے اٹھایاتو میں نے اس کے ہاتھ پر وار کرکے کاٹ دیا ۔ اس کے بعد وہ مجھ سے چمٹ گیا اور اتنی زور سے مجھے بھینچاکہ میں ڈرگیا ۔ آخر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور ڈھیلا پڑگیا ۔ میں نے اسے دھکا دے کر قتل کر دیااور مسلمان بھاگ نکلے اور میں بھی ان کے ساتھ بھاگ پڑا ۔ لوگوں میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نظر آئے تومیں نے ان سے پوچھا ، کہ لوگ بھاگ کیوں رہے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے ، پھر لوگ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر جمع ہوگئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اس پر گواہ قائم کر دے گاکہ کسی مقتول کو اسی نے قتل کیا ہے تو اس کا سارا سامان اسے ملے گا ۔ میں اپنے مقتول پر گواہ کے لیے اٹھا لیکن مجھے کوئی گواہ دکھائی نہیں دیا ۔ آخر میں بیٹھ گیا پھر میرے سامنے ایک صورت آئی ۔ میں نے اپنے معاملے کی اطلاع حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی ۔ آپ کے پاس بیٹھے ہوئے ایک صاحب ( اسود بن خزاعی اسلمی رضی اللہ عنہ ) نے کہا کہ ان کے مقتول کا ہتھیا رمیرے پاس ہے ، آپ میرے حق میں انہیں راضی کردیں ۔ اس پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا ہرگز نہیں ، اللہ کے شیروں میںسے ایک شیر کوچھوڑ کر جو اللہ اور اس کے رسول کے لیے جنگ کرتا ہے ، اس کا حق قریش کے ایک بزدل کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہیں دے سکتے ۔ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور مجھے وہ سامان عطافرمایا ۔ میں نے اس سے ایک باغ خریدا اور یہ سب سے پہلامال تھا جسے میں نے اسلام لانے کے بعد حاصل کیا تھا ۔
تشریح :
غزوئہ حنین کے بارے میں مزید معلومات درج ذیل ہیں ۔ غزوئہ بدر کے بعد دوسرا غزوہ جس کا تذکرہ اشارۃً نہیں بلکہ نام کی صراحت کے ساتھ قرآن مجید میں آیا ہے وہ غزوئہ حنین ہے۔ حنین ایک وادی کا نام ہے جو شہر طائف سے 30-40 میل شمال ومشرق میں جبل اوطاس میں واقع ہے۔ یہ عرب کا مشہور جنگجو و جنگ باز قبیلہ ہوازن کا مسکن تھااور اس قبیلہ کی ملکئہ تیر اندازی کی شہرت دوردور تھی۔ انہوں نے فتح مکہ کی خبر پاکر دل میں کہا کہ جب قریش مقابلہ میں نہ ٹھہر سکے تو اب ہما ری بھی خیر نہیں اور خود ہی جنگ و قتال کا سامان شروع کر دیااور چاہا کہ مسلمانوں پر جو ابھی مکہ ہی میں یکجا تھے، یک بیک آپڑیں اور اس منصوبہ میں ایک دوسرا پر قوت اور جنگجو قبیلہ بنی ثقیف بھی ان کا شریک ہو گیااور ہوازن اور ثقیف کے اتحاد نے دشمن کی جنگی قوت کوبہت ہی بڑھا دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کی معتبر خبر مل گئی تو ایک اچھے جنرل کی طرح آپ خود ہی پیش قدمی کر کے باہر نکل آئے اور مقام حنین پر غنیم کے سامنے صف آرائی کر لی۔ آپ کے لشکر کی تعداد بارہ ہزار تھی۔ ان میں دس ہزار تو وہی فدائی جو مدینہ سے ہم رکاب آئے تھے۔ دو ہزار آدمی مکہ کے بھی شامل ہوگئے مگر ان میں سب مسلمان نہ تھے کچھ تو ابھی بہ دستور مشرک ہی تھے اور کچھ نو مسلم کے بجائے، نیم مسلم تھے۔ بہر حال مجاہدین کی اس جمیعت کثیر پر مسلمانوں کو ناز ہو چلا کہ جب ہم تعداد قلیل میں رہ کر برابر فتح پاتے آئے تو اب کی تعداد اتنی بڑی ہے ، اب فتح میں کیا شبہ ہوسکتا ہے۔ لیکن جب جنگ شروع ہوئی تو اس کے بعض دور اسلامی لشکر پر بہت ہی سخت گذرے اور مسلمانوں کا اپنی کثرت تعداد پر فخر کرناذرا بھی ان کے کام نہ آیا۔ ایک موقع ایسا بھی پیش آیا کہ اسلامی فوج کو ایک تنگ نشیبی وادی میں اترنا پڑااور دشمن نے اپنی کمین گاہ سے یک بیک ان پر تیروں کی بارش شروع کردی۔ خیر پھر غیبی امداد کا نزول ہوااور آخری فتح مسلمانوں ہی کے حصے میں رہی۔ قرآن مجید نے ا س سارے نشیب وفراز کی نقشہ کشی اپنے الفاظ میں کر دی ہے۔ -------------------------------------------------------------------------------- ( --- ) اللہ نے یقینا بہت سارے موقعوں پر تمہاری نصرت کی ہے اور حنین کے دن بھی جب کہ تم کو اپنی کثرت تعداد پر غرور ہوگیا تھا تو وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور تم پر زمین باوجود اپنی فراخی کے تنگی کرنے لگی پھر تم پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس کے بعد اللہ نے اپنی طرف سے اپنے رسول اور مومنین پر تسلی نازل فرمائی اور اس نے ایسے لشکر اتارے جنہیں تم دیکھ نہ سکے اور اللہ نے کافروں کو عذاب میں پکڑا۔ یہی بدلہ ہے کافروں کے لیے۔ غزوئہ حنین کا زمانہ شوال سنہ 8ھ مطابق جنوری سنہ663ءکاہے ۔ ( قرآنی سیرت نبوی ) حدیث ہذا -----کے ذیل علامہ قسطلانی لکھتے ہیں۔ قال الحافظ ابو عبد اللہ الحمیدی الاندلسی سمعت بعض اھل العلم یقول بعد ذکر ھذا الحدیث لو لم یکن من فضیلۃ الصدیق رضی اللہ عنہ الا ہذافانہ بثاقب عملہ وشدۃ ضرا منہ وقوۃ انصافہ وصحۃ توفیقہ وصدق تحقیقہ بادر الی القول الحق فزجروافتی وحکم وامضی واخبر نی الشریعۃ عنہ صل اللہ علیہ وسلم بحضرتہ وبین یدیہ بما صدقہ فیہ اجراہ علی قوتہ وھذا من خصائصہ الکبری الی مالایحصی من فضائلہ الاخری ( قسطلانی ) یعنی حافظ ابو عبداللہ حمیدی اندلسی نے کہاکہ میں نے اس حدیث کے ذکر میں بعض اہل علم سے سنا کہ اگر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے فضائل میں اور کوئی حدیث نہ ہوتی صرف یہی ہوتی تو بھی ان کے فضائل کے لیے یہی کافی تھی جس سے ان کا علم ان کی پختگی قوت انصاف اور عمدہ توفیق اور تحقیق حق وغیرہ اوصاف حمیدہ ظاہر ہیں۔ انہوں نے حق بات کہنے میں کس قدر دلیری سے کام لیااور فتوی دینے کے ساتھ غلط گوکوڈانٹا اور سب سے بڑی خوبی یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دربارعالی میں آواز حق کو بلند کیا، جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تصدیق فرمائی اور ہو بہواسے جاری فرما دیا۔ یہ امور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خصائص میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں ۔ اللہ تعالی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی روح پر بے شمار سلام اور رحمت نازل فرمائے۔ آمین ( راز )
غزوئہ حنین کے بارے میں مزید معلومات درج ذیل ہیں ۔ غزوئہ بدر کے بعد دوسرا غزوہ جس کا تذکرہ اشارۃً نہیں بلکہ نام کی صراحت کے ساتھ قرآن مجید میں آیا ہے وہ غزوئہ حنین ہے۔ حنین ایک وادی کا نام ہے جو شہر طائف سے 30-40 میل شمال ومشرق میں جبل اوطاس میں واقع ہے۔ یہ عرب کا مشہور جنگجو و جنگ باز قبیلہ ہوازن کا مسکن تھااور اس قبیلہ کی ملکئہ تیر اندازی کی شہرت دوردور تھی۔ انہوں نے فتح مکہ کی خبر پاکر دل میں کہا کہ جب قریش مقابلہ میں نہ ٹھہر سکے تو اب ہما ری بھی خیر نہیں اور خود ہی جنگ و قتال کا سامان شروع کر دیااور چاہا کہ مسلمانوں پر جو ابھی مکہ ہی میں یکجا تھے، یک بیک آپڑیں اور اس منصوبہ میں ایک دوسرا پر قوت اور جنگجو قبیلہ بنی ثقیف بھی ان کا شریک ہو گیااور ہوازن اور ثقیف کے اتحاد نے دشمن کی جنگی قوت کوبہت ہی بڑھا دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کی معتبر خبر مل گئی تو ایک اچھے جنرل کی طرح آپ خود ہی پیش قدمی کر کے باہر نکل آئے اور مقام حنین پر غنیم کے سامنے صف آرائی کر لی۔ آپ کے لشکر کی تعداد بارہ ہزار تھی۔ ان میں دس ہزار تو وہی فدائی جو مدینہ سے ہم رکاب آئے تھے۔ دو ہزار آدمی مکہ کے بھی شامل ہوگئے مگر ان میں سب مسلمان نہ تھے کچھ تو ابھی بہ دستور مشرک ہی تھے اور کچھ نو مسلم کے بجائے، نیم مسلم تھے۔ بہر حال مجاہدین کی اس جمیعت کثیر پر مسلمانوں کو ناز ہو چلا کہ جب ہم تعداد قلیل میں رہ کر برابر فتح پاتے آئے تو اب کی تعداد اتنی بڑی ہے ، اب فتح میں کیا شبہ ہوسکتا ہے۔ لیکن جب جنگ شروع ہوئی تو اس کے بعض دور اسلامی لشکر پر بہت ہی سخت گذرے اور مسلمانوں کا اپنی کثرت تعداد پر فخر کرناذرا بھی ان کے کام نہ آیا۔ ایک موقع ایسا بھی پیش آیا کہ اسلامی فوج کو ایک تنگ نشیبی وادی میں اترنا پڑااور دشمن نے اپنی کمین گاہ سے یک بیک ان پر تیروں کی بارش شروع کردی۔ خیر پھر غیبی امداد کا نزول ہوااور آخری فتح مسلمانوں ہی کے حصے میں رہی۔ قرآن مجید نے ا س سارے نشیب وفراز کی نقشہ کشی اپنے الفاظ میں کر دی ہے۔ -------------------------------------------------------------------------------- ( --- ) اللہ نے یقینا بہت سارے موقعوں پر تمہاری نصرت کی ہے اور حنین کے دن بھی جب کہ تم کو اپنی کثرت تعداد پر غرور ہوگیا تھا تو وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور تم پر زمین باوجود اپنی فراخی کے تنگی کرنے لگی پھر تم پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس کے بعد اللہ نے اپنی طرف سے اپنے رسول اور مومنین پر تسلی نازل فرمائی اور اس نے ایسے لشکر اتارے جنہیں تم دیکھ نہ سکے اور اللہ نے کافروں کو عذاب میں پکڑا۔ یہی بدلہ ہے کافروں کے لیے۔ غزوئہ حنین کا زمانہ شوال سنہ 8ھ مطابق جنوری سنہ663ءکاہے ۔ ( قرآنی سیرت نبوی ) حدیث ہذا -----کے ذیل علامہ قسطلانی لکھتے ہیں۔ قال الحافظ ابو عبد اللہ الحمیدی الاندلسی سمعت بعض اھل العلم یقول بعد ذکر ھذا الحدیث لو لم یکن من فضیلۃ الصدیق رضی اللہ عنہ الا ہذافانہ بثاقب عملہ وشدۃ ضرا منہ وقوۃ انصافہ وصحۃ توفیقہ وصدق تحقیقہ بادر الی القول الحق فزجروافتی وحکم وامضی واخبر نی الشریعۃ عنہ صل اللہ علیہ وسلم بحضرتہ وبین یدیہ بما صدقہ فیہ اجراہ علی قوتہ وھذا من خصائصہ الکبری الی مالایحصی من فضائلہ الاخری ( قسطلانی ) یعنی حافظ ابو عبداللہ حمیدی اندلسی نے کہاکہ میں نے اس حدیث کے ذکر میں بعض اہل علم سے سنا کہ اگر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے فضائل میں اور کوئی حدیث نہ ہوتی صرف یہی ہوتی تو بھی ان کے فضائل کے لیے یہی کافی تھی جس سے ان کا علم ان کی پختگی قوت انصاف اور عمدہ توفیق اور تحقیق حق وغیرہ اوصاف حمیدہ ظاہر ہیں۔ انہوں نے حق بات کہنے میں کس قدر دلیری سے کام لیااور فتوی دینے کے ساتھ غلط گوکوڈانٹا اور سب سے بڑی خوبی یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دربارعالی میں آواز حق کو بلند کیا، جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تصدیق فرمائی اور ہو بہواسے جاری فرما دیا۔ یہ امور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خصائص میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں ۔ اللہ تعالی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی روح پر بے شمار سلام اور رحمت نازل فرمائے۔ آمین ( راز )