‌صحيح البخاري - حدیث 4317

كِتَابُ المَغَازِي بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَيَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمْ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُدْبِرِينَ ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ إِلَى قَوْلِهِ غَفُورٌ رَحِيمٌ صحيح حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ سَمِعَ الْبَرَاءَ وَسَأَلَهُ رَجُلٌ مِنْ قَيْسٍ أَفَرَرْتُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ فَقَالَ لَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَفِرَّ كَانَتْ هَوَازِنُ رُمَاةً وَإِنَّا لَمَّا حَمَلْنَا عَلَيْهِمْ انْكَشَفُوا فَأَكْبَبْنَا عَلَى الْغَنَائِمِ فَاسْتُقْبِلْنَا بِالسِّهَامِ وَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَغْلَتِهِ الْبَيْضَاءِ وَإِنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ الْحَارِثِ آخِذٌ بِزِمَامِهَا وَهُوَ يَقُولُ أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبْ قَالَ إِسْرَائِيلُ وَزُهَيْرٌ نَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَغْلَتِهِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4317

کتاب: غزوات کے بیان میں باب: جنگ حنین کا بیان۔۔۔۔ مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا ، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا ، ان سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے ابو اسحاق نے ، انہوں نے براء رضی اللہ عنہ سے سنااور ان سے قبیلہ قیس کے ایک آدمی نے پوچھا کہ کیا تم لوگ نبی کریم اکو غزوئہ حنین میں چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے ؟ انہوں نے کہا لیکن حضور اکرم ااپنی جگہ سے نہیں ہٹے تھے ۔ قبیلہ ہوازن کے لوگ تیر انداز تھے ، جب ان پر ہم نے حملہ کیا تو وہ پسپا ہوگئے پھر ہم لوگ مال غنیمت میں لگ گئے ۔ آ خر ہمیں ان کے تیروں کا سامنا کر نا پڑا ۔ میں نے خود دیکھا تھا کہ حضور اکرم ااپنے سفید خچر پر سوار تھے اور حضرت ابو سفیان بن حارث رضی اللہ عنہ اس کی لگام تھامے ہوئے تھے ۔ حضور افرمارہے تھے ، میں نبی ہوں ، اس میں جھوٹ نہیں ۔ اسرائیل اور زہیر نے بیان کیاکہ بعد میں حضور ااپنے خچر سے اتر گئے ۔
تشریح : میدان جنگ میں آنحضرت اثابت قدم رہے اور چا رآدمی آپ کے ساتھ جمے رہے۔ تین بنو ہاشم کے ایک حضرت عباس رضی اللہ عنہ آپ کے سامنے تھے اور ابو سفیان رضی اللہ عنہ آپ کے خچر کی باگ تھامے ہوئے تھے ، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آپ کے دوسری طرف تھے۔ ترمذی کی روایت میں ہے کہ سو آدمی بھی آپ کے ساتھ نہ رہے اورامام احمد اور حاکم کی روایت میں ہے ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہ سب لوگ بھاگ نکلے صرف اسی ( 80 ) آدمی مہاجرین اور انصار میں سے آپ کے ساتھ رہ گئے۔ مسلم کی روایت میں ہے کہ کافروں نے آپ کو گھیر لیاآپ خچر سے اتر پڑے پھر خاک کی ایک مٹھی لی اور کافروں کے منہ پر ماری ، کوئی کافر باقی نہ رہا جس کی آنکھ میں مٹی نہ گھسی ہو۔ آخر میں کافر ہار کر سب بھاگ گئے۔ آپ نے فرمایا” شاھت الوجوہ“ یعنی ان کے منہ کالے ہوں۔ یہ بھی آنحضرت اکے بڑے معجزات میں سے ہے۔ میدان جنگ میں آنحضرت اثابت قدم رہے اور چا رآدمی آپ کے ساتھ جمے رہے۔ تین بنو ہاشم کے ایک حضرت عباس رضی اللہ عنہ آپ کے سامنے تھے اور ابو سفیان رضی اللہ عنہ آپ کے خچر کی باگ تھامے ہوئے تھے ، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آپ کے دوسری طرف تھے۔ ترمذی کی روایت میں ہے کہ سو آدمی بھی آپ کے ساتھ نہ رہے اورامام احمد اور حاکم کی روایت میں ہے ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہ سب لوگ بھاگ نکلے صرف اسی ( 80 ) آدمی مہاجرین اور انصار میں سے آپ کے ساتھ رہ گئے۔ مسلم کی روایت میں ہے کہ کافروں نے آپ کو گھیر لیاآپ خچر سے اتر پڑے پھر خاک کی ایک مٹھی لی اور کافروں کے منہ پر ماری ، کوئی کافر باقی نہ رہا جس کی آنکھ میں مٹی نہ گھسی ہو۔ آخر میں کافر ہار کر سب بھاگ گئے۔ آپ نے فرمایا” شاھت الوجوہ“ یعنی ان کے منہ کالے ہوں۔ یہ بھی آنحضرت اکے بڑے معجزات میں سے ہے۔