‌صحيح البخاري - حدیث 4312

كِتَابُ المَغَازِي بَابٌ صحيح حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ قَالَ حَدَّثَنِي الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ قَالَ زُرْتُ عَائِشَةَ مَعَ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ فَسَأَلَهَا عَنْ الْهِجْرَةِ فَقَالَتْ لَا هِجْرَةَ الْيَوْمَ كَانَ الْمُؤْمِنُ يَفِرُّ أَحَدُهُمْ بِدِينِهِ إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَخَافَةَ أَنْ يُفْتَنَ عَلَيْهِ فَأَمَّا الْيَوْمَ فَقَدْ أَظْهَرَ اللَّهُ الْإِسْلَامَ فَالْمُؤْمِنُ يَعْبُدُ رَبَّهُ حَيْثُ شَاءَ وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4312

کتاب: غزوات کے بیان میں باب ہم سے اسحاق بن یزید نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ بن حمزہ نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے امام اوزاعی نے بیان کیا ، ان سے عطا بن ابی رباح نے بیان کیا کہ میں عبید بن عمیر کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ عبید نے ان سے ہجرت کا مسئلہ پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اب ہجرت باقی نہیں رہی ، پہلے مسلمان اپنا دین بچانے کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف پناہ لےنے کے لیے آتے تھے ، اس خوف سے کہ کہیں دین کی وجہ سے فتنہ میں نہ پڑجائیں ۔ اس لیے اب جب کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غالب کر دیا تو مسلمان جہاں بھی چاہے اپنے رب کی عبادت کر سکتا ہے ۔ اب تو صرف جہاد اور جہاد کی نیت کا ثواب باقی ہے ۔
تشریح : یہ سوال فتح مکہ کے بعد مدینہ شریف ہی کی طرف ہجرت کر نے سے متعلق تھا جس کا جواب وہ دیا گیا جو روایت میں مذکور ہے، باقی عام حیثیت سے حالات کے تحت دار الکفر سے دار الاسلام کی طرف ہجرت کر نا بوقت ضرورت اب بھی جائز ہے۔ بشرطیکہ ایسے حالات پائے جو اس کیلئے ضروری ہیں ۔ روایات بالا میں کسی نہ کسی پہلو سے فتح مکہ کا ذکر ہو ا ہے، اسی لیے ان کو اس باب کے تحت لایا گیاہے۔ یہ سوال فتح مکہ کے بعد مدینہ شریف ہی کی طرف ہجرت کر نے سے متعلق تھا جس کا جواب وہ دیا گیا جو روایت میں مذکور ہے، باقی عام حیثیت سے حالات کے تحت دار الکفر سے دار الاسلام کی طرف ہجرت کر نا بوقت ضرورت اب بھی جائز ہے۔ بشرطیکہ ایسے حالات پائے جو اس کیلئے ضروری ہیں ۔ روایات بالا میں کسی نہ کسی پہلو سے فتح مکہ کا ذکر ہو ا ہے، اسی لیے ان کو اس باب کے تحت لایا گیاہے۔