‌صحيح البخاري - حدیث 4304

كِتَابُ المَغَازِي بَابٌ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ امْرَأَةً سَرَقَتْ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ الفَتْحِ، فَفَزِعَ قَوْمُهَا إِلَى أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ يَسْتَشْفِعُونَهُ، قَالَ عُرْوَةُ: فَلَمَّا كَلَّمَهُ أُسَامَةُ [ص:152] فِيهَا، تَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «أَتُكَلِّمُنِي فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ»، قَالَ أُسَامَةُ: اسْتَغْفِرْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَلَمَّا كَانَ العَشِيُّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ خَطِيبًا، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّمَا أَهْلَكَ النَّاسَ قَبْلَكُمْ: أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ، وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الحَدَّ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا ثُمَّ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتِلْكَ المَرْأَةِ فَقُطِعَتْ يَدُهَا، فَحَسُنَتْ تَوْبَتُهَا بَعْدَ ذَلِكَ وَتَزَوَّجَتْ قَالَتْ عَائِشَةُ: «فَكَانَتْ تَأْتِي بَعْدَ ذَلِكَ فَأَرْفَعُ حَاجَتَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4304

کتاب: غزوات کے بیان میں باب ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا ، کہا کہ ہم کو عبد اللہ بن مبارک نے خبردی ، انہیں یونس نے خبر دی ، انہیں زہری نے ، کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ غزوہ‘ فتح ( مکہ ) کے موقع پر ایک عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں چوری کرلی تھی ۔ اس عورت کی قوم گھبرائی ہوئی اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے پاس آ ئی تاکہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی سفارش کردیں ( کہ اس کا ہاتھ چوری کے جرم میں نہ کاٹا جائے ) عروہ نے بیان کیا کہ جب اسامہ رضی اللہ عنہ نے اس کے بارے میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آ پ نے فرمایا ! تم مجھ سے اللہ کی قائم کی ہوئی ایک حد کے بارے میں سفارش کرنے آئے ہو ۔ اسامہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ، میرے لیے دعاءمغفرت کیجئے ، یا رسول اللہ ! پھر دو پہر بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو خطاب کیا ، اللہ تعالیٰ کی اس کے شان کے مطابق تعریف کرنے کے بعد فرمایا ، اما بعد ! تم میں سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہو گئے کہ اگر ان میں سے کوئی معززشخص چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے لیکن اگر کوئی کمزور چوری کرلیتاا تو اس پر حد قائم کر تے اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اگر فاطمہ بنت محمد رضی اللہ عنہا بھی چوری کرلے تو میں اس کا ہاتھ کاٹوںگا ۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے لیے حکم دیا اور ان کا ہاتھ کاٹ دیا گیا ۔ پھر اس عورت نے صدق دل سے توبہ کرلی اور شادی بھی کرلی ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ بعد میں وہ میرے یہاں آتی تھیں ۔ ان کو اور کوئی ضرورت ہوتی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کردیتی ۔
تشریح : امام احمد کی روایت میں ہے کہ اس عورت نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ آپ نے فرمایا آج تو تو ایسی ہے جیسے اس دن ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئی تھی۔ حدود اسلامی کا پس منظر ہی یہ ہے ان کے قائم ہونے کے بعد مجرم گناہ سے بالکل پاک صاف ہو کر مقبول الہی ہو جاتا ہے اور حدود کے قائم ہونے سے جرائم کا سد باب بھی ہو جاتا ہے ۔ جیسا کہ مملکت سعودیہ ایدھا اللہ بنصرہ میں موجود ہے، جہاں حدود شرعی قائم ہوتے ہیں ۔ اس لیے جرائم بہت کم پائے جاتے ہیں ۔ آیت شریفہ فِی القِصَاصِ حَیو ۃ یاو لِی الالبَابِ ( البقرہ: 179 ) میں اسی طرف اشارہ ہے ۔ روایت میں جس عورت کا مقدمہ مذکور ہے اس کا نام فاطمہ مخزومیہ تھا، بعد میں بنو سلیم کے ایک شخص سے اس نے شادی بھی کر لی تھی۔ امام احمد کی روایت میں ہے کہ اس عورت نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ آپ نے فرمایا آج تو تو ایسی ہے جیسے اس دن ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئی تھی۔ حدود اسلامی کا پس منظر ہی یہ ہے ان کے قائم ہونے کے بعد مجرم گناہ سے بالکل پاک صاف ہو کر مقبول الہی ہو جاتا ہے اور حدود کے قائم ہونے سے جرائم کا سد باب بھی ہو جاتا ہے ۔ جیسا کہ مملکت سعودیہ ایدھا اللہ بنصرہ میں موجود ہے، جہاں حدود شرعی قائم ہوتے ہیں ۔ اس لیے جرائم بہت کم پائے جاتے ہیں ۔ آیت شریفہ فِی القِصَاصِ حَیو ۃ یاو لِی الالبَابِ ( البقرہ: 179 ) میں اسی طرف اشارہ ہے ۔ روایت میں جس عورت کا مقدمہ مذکور ہے اس کا نام فاطمہ مخزومیہ تھا، بعد میں بنو سلیم کے ایک شخص سے اس نے شادی بھی کر لی تھی۔