كِتَابُ المَغَازِي بَابٌ صحيح حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ شُرَحْبِيلَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ أَنَّهُ قَالَ لِعَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ وَهُوَ يَبْعَثُ الْبُعُوثَ إِلَى مَكَّةَ ائْذَنْ لِي أَيُّهَا الْأَمِيرُ أُحَدِّثْكَ قَوْلًا قَامَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْغَدَ يَوْمَ الْفَتْحِ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي وَأَبْصَرَتْهُ عَيْنَايَ حِينَ تَكَلَّمَ بِهِ إِنَّهُ حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ إِنْ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ بِهَا دَمًا وَلَا يَعْضِدَ بِهَا شَجَرًا فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ لِقِتَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا فَقُولُوا لَهُ إِنَّ اللَّهَ أَذِنَ لِرَسُولِهِ وَلَمْ يَأْذَنْ لَكُمْ وَإِنَّمَا أَذِنَ لِي فِيهَا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ وَقَدْ عَادَتْ حُرْمَتُهَا الْيَوْمَ كَحُرْمَتِهَا بِالْأَمْسِ وَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ فَقِيلَ لِأَبِي شُرَيْحٍ مَاذَا قَالَ لَكَ عَمْرٌو قَالَ قَالَ أَنَا أَعْلَمُ بِذَلِكَ مِنْكَ يَا أَبَا شُرَيْحٍ إِنَّ الْحَرَمَ لَا يُعِيذُ عَاصِيًا وَلَا فَارًّا بِدَمٍ وَلَا فَارًّا بِخَرْبَةٍ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ الْخَرْبَةُ الْبَلِيَّةُ
کتاب: غزوات کے بیان میں
باب
ہم سے سعید بن شرحبیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ‘ ان سے مقبری نے کہ ابو شریح عدوی رضی اللہ عنہ نے ( مدینہ کے امیر ) عمرو بن سعید سے کہا جب کہ عمرو بن سعید ( عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے خلاف ) مکہ کی طرف لشکر بھیج رہے تھے کہ اے امیر ! مجھے اجازت دیجئے کہ میں آپ سے ایک حدیث بیان کروں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن ارشاد فرمائی تھی ۔ اس حدیث کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمارہے تھے تو میں اپنی آنکھوں سے آپ کو دیکھ رہا تھا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اللہ کی حمد وثنا بیان کی اور پھر فرمایا ‘ بلا شبہ مکہ کو اللہ تعالیٰ نے حرمت والا شہر قراردیا ہے کسی انسان نے اسے اپنے طرف سے حرمت والا قرار نہیں دیا ۔ اس لیے کسی شخص کے لیے بھی جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو ‘ جائز نہیں کہ اس میں کسی کا خون بہائے اور کوئی اس سرزمیں کا کوئی درخت کاٹے اور اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ( فتح مکہ کے موقع پر ) جنگ سے اپنے لیے بھی رخصت نکالے تو تم اس سے کہہ دینا کہ اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے رسول کو ( تھوڑی دیر کے لیے ) اس کی اجازت دی تھی ۔ ہمارے لیے بالکل اجازت نہیں ہے اور مجھے بھی اس کی اجازت دن کے تھوڑے سے حصے کے لیے ملی تھی اور آج پھر اس کی حرمت اسی طرح لوٹ آئی ہے جس طرح کل یہ شہر حرمت والا تھا ۔ پس جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ ( ان کو میرا کلام ) پہنچا دیں جو موجود نہیں ۔ ابو شریح سے پوچھا گیا کہ عمرو بن سعید نے آپ کو پھر جواب کیا دیا تھا ؟ تو انہوں نے بتایا کہ اس نے کہا کہ میں یہ مسائل تم سے زیا دہ جانتا ہوں ‘ حرم کسی گنہگار کو پناہ نہیں دیتا ‘ نہ کسی کا خون کر کے بھاگنے والے کو پناہ دیتا ہے ‘ مفسد کو بھی پناہ نہیں دیتا ۔
تشریح :
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے یزید کی بیعت نہیں کی تھی ۔ اس لیے یزید نے ان کو زیر کرنے کے لیے گورنر مدینہ عمروبن سعید کو مامور کیا تھا جس پر ابو شریح نے ان کو یہ حدیث سنائی اور مکہ پر حملہ آور ہونے سے روکا مگر عمرو بن سعید طاقت کے نشہ میں چور تھا ۔ اس نے حدیث نبوی کو نہیں سنا اور مکہ پر چڑھائی کردی اور ساتھ ہی یہ بہانے بنائے جو یہاں مذکور ہیں۔ اس طرح تاریخ میں ہمیشہ کے لیے بد نامی کو اختیار کیا اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے خون نا حق کا بوجھ اپنی گردن پر رکھا اور حدیث میں فتح مکہ وحرمت مکہ پر اشارہ ہے یہی مقصود باب ہے۔
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اسدی قریشی ہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نواسے ہیں۔ مدینہ میں مہاجرین میں یہ پہلے بچے ہیں جو سنہ 1 ھ میں پیدا ہوئے ۔ محترم نانا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے کانوں میں اذان کہی انکی والدہ حضرت اسماءبنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما ہیں۔ مقام قبا میں جناب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چھو ہارہ چبا کر اپنے لعاب دہن کے ساتھ ان کے منہ میں ڈالا اور برکت کی دعا کی۔ بہت ہی بار عب صاف چہرے والے موٹے تازے بڑے قوی بہادر تھے ۔ ان کی دادی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں ان کی خالہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ آٹھ سال کی عمر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور انہوں نے آٹھ حج کئے اور حجاج بن یوسف نے انکو مکہ میں منگل کے دن 17 ۔ جمادی الثانی سنہ73 ھ کو شہید کر ڈالا۔ ایسی ہی ظالمانہ حرکتوں سے عذاب الہی میں گرفتار ہو کر حجاج بن یوسف بڑی ذلت کی موت مرا۔ اس نے جس بزرگ کو آخر میں ظلم سے قتل کیا وہ حضرت سعید بن جبیر ہیں۔ جب بھی حجاج بن یوسف سوتا حضرت سعید خواب میں آکر اس کا پاؤں پکڑ کر ہلا د یتے اور اپنے خون نا حق کی یاد دلاتے ۔ انَّ فِی ذ لِکَ لَعِبرۃً ِلاُولِی الابصَارِ ( آل عمران: 13 )
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے یزید کی بیعت نہیں کی تھی ۔ اس لیے یزید نے ان کو زیر کرنے کے لیے گورنر مدینہ عمروبن سعید کو مامور کیا تھا جس پر ابو شریح نے ان کو یہ حدیث سنائی اور مکہ پر حملہ آور ہونے سے روکا مگر عمرو بن سعید طاقت کے نشہ میں چور تھا ۔ اس نے حدیث نبوی کو نہیں سنا اور مکہ پر چڑھائی کردی اور ساتھ ہی یہ بہانے بنائے جو یہاں مذکور ہیں۔ اس طرح تاریخ میں ہمیشہ کے لیے بد نامی کو اختیار کیا اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے خون نا حق کا بوجھ اپنی گردن پر رکھا اور حدیث میں فتح مکہ وحرمت مکہ پر اشارہ ہے یہی مقصود باب ہے۔
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اسدی قریشی ہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نواسے ہیں۔ مدینہ میں مہاجرین میں یہ پہلے بچے ہیں جو سنہ 1 ھ میں پیدا ہوئے ۔ محترم نانا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے کانوں میں اذان کہی انکی والدہ حضرت اسماءبنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما ہیں۔ مقام قبا میں جناب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چھو ہارہ چبا کر اپنے لعاب دہن کے ساتھ ان کے منہ میں ڈالا اور برکت کی دعا کی۔ بہت ہی بار عب صاف چہرے والے موٹے تازے بڑے قوی بہادر تھے ۔ ان کی دادی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں ان کی خالہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ آٹھ سال کی عمر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور انہوں نے آٹھ حج کئے اور حجاج بن یوسف نے انکو مکہ میں منگل کے دن 17 ۔ جمادی الثانی سنہ73 ھ کو شہید کر ڈالا۔ ایسی ہی ظالمانہ حرکتوں سے عذاب الہی میں گرفتار ہو کر حجاج بن یوسف بڑی ذلت کی موت مرا۔ اس نے جس بزرگ کو آخر میں ظلم سے قتل کیا وہ حضرت سعید بن جبیر ہیں۔ جب بھی حجاج بن یوسف سوتا حضرت سعید خواب میں آکر اس کا پاؤں پکڑ کر ہلا د یتے اور اپنے خون نا حق کی یاد دلاتے ۔ انَّ فِی ذ لِکَ لَعِبرۃً ِلاُولِی الابصَارِ ( آل عمران: 13 )