كِتَابُ المَغَازِي بَابٌ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كَانَ عُمَرُ يُدْخِلُنِي مَعَ أَشْيَاخِ بَدْرٍ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِمَ تُدْخِلُ هَذَا الْفَتَى مَعَنَا وَلَنَا أَبْنَاءٌ مِثْلُهُ فَقَالَ إِنَّهُ مِمَّنْ قَدْ عَلِمْتُمْ قَالَ فَدَعَاهُمْ ذَاتَ يَوْمٍ وَدَعَانِي مَعَهُمْ قَالَ وَمَا رُئِيتُهُ دَعَانِي يَوْمَئِذٍ إِلَّا لِيُرِيَهُمْ مِنِّي فَقَالَ مَا تَقُولُونَ فِي إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا حَتَّى خَتَمَ السُّورَةَ فَقَالَ بَعْضُهُمْ أُمِرْنَا أَنْ نَحْمَدَ اللَّهَ وَنَسْتَغْفِرَهُ إِذَا نُصِرْنَا وَفُتِحَ عَلَيْنَا وَقَالَ بَعْضُهُمْ لَا نَدْرِي أَوْ لَمْ يَقُلْ بَعْضُهُمْ شَيْئًا فَقَالَ لِي يَا ابْنَ عَبَّاسٍ أَكَذَاكَ تَقُولُ قُلْتُ لَا قَالَ فَمَا تَقُولُ قُلْتُ هُوَ أَجَلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمَهُ اللَّهُ لَهُ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ فَتْحُ مَكَّةَ فَذَاكَ عَلَامَةُ أَجَلِكَ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا قَالَ عُمَرُ مَا أَعْلَمُ مِنْهَا إِلَّا مَا تَعْلَمُ
کتاب: غزوات کے بیان میں
باب
ہم سے ابو النعمان نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابو عوانہ نے بیان کیا ‘ ان سے ابو بشر نے ‘ ان سے سعید بن جبیر نے ‘ ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ مجھے اپنی مجلس میں اس وقت بھی بلا لیتے جب وہاں بدر کی جنگ میں شریک ہونے والے بزرگ صحابہ رضی اللہ عنہم بیٹھے ہوتے ۔ اس پر بعض لوگ کہنے لگے اس جوان کو آپ ہماری مجلس میں کیوں بلاتے ہیں ؟ اس کے جیسے تو ہمارے بچے بھی ہیں ۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا وہ تو ان لوگوں میں سے ہے جن کا علم و فضل تم جانتے ہو ۔ انہوںنے بیان کیا کہ پھر ان بزرگ صحابیوں کو ایک دن عمر رضی اللہ عنہ نے بلایا اور مجھے بھی بلایا ۔ بیان کیا کہ میں سمجھتا تھا کہ مجھے اس دن آپ نے اس لیے بلایا تھا تاکہ آپ میرا علم بتا سکیں ۔ پھر آپ نے دریافت کیا اذا جاءنصر اللہ والفتح ورایت الناس یدخلون ‘ ختم سورت تک ‘ کے متعلق تم لوگوں کا کیاخیال ہے ؟ کسی نے کہا کہ ہمیں اس آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اللہ کی حمد بیان کریں اور اس سے استغفار کریں کہ اس نے ہماری مدد کی اور ہمیں فتح عنایت فرمائی ۔ بعض نے کہا کہ ہمیں اس کے متعلق کچھ معلوم نہیں ہے اور بعض نے کوئی جواب نہیں دیا پھر انہوں نے مجھ سے دریافت کیا ‘ ابن عباس ! کیا تمہارا بھی یہی خیال ہے ؟ میں نے جواب دیا کہ نہیں ‘ پوچھا ‘ پھر تم کیا کہتے ہو ؟ میں نے کہا کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی طرف اشارہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی مدد اور فتح حاصل ہو گئی ۔ یعنی فتح مکہ تو یہ آپ کی وفات کی نشانی ہے ۔ اس لیے آپ اپنے رب کی حمد اور تسبیح اور اس کی مغفرت طلب کریں کہ وہ توبہ قبول کر نے والا ہے ۔ عمر رضی اللہ عنہ کہا کہ جو کچھ تم نے کہا وہی میں بھی سمجھتا ہوں ۔
تشریح :
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دین کی ایک بات پوچھ کر ابن عباس رضی اللہ عنہما کی فضیلت بوڑھوں پر ظاہر کردی جیسے اللہ تعالی نے آدم کو علم دے کر بڑی بڑی عمر والے فرشتوں پر ان کی فضیلت ثابت کر دی اور ان فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو ۔ حدیث میں وفات نبوی کی طرف اشارہ ہے۔ اس کے یہاں اندراج کا یہی مقصد ہے۔ سورۃ شریفہ میں اشارہ تھا کہ ہر کمالے راز والے ۔ ہر زوالے را کمالے۔ اس حدیث کے ذیل مولانا وحید الزماں کی تقریر دل پذیر یہ ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کا عمل اس پر تھا بزرگی عقل است نہ بہ سال ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما اس وقت کے بڑے عالم تھے اور عالم گو جوان ہو مگر علم کی فضیلت سے وہ بوڑھوں کے برابر بلکہ ان سے بھی افضل سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے پیشوا خلفائے راشدین اور دوسرے شاہان اسلام نے علم کی ایسی قدر دانی کی ہے جب مسلمان علم حاصل کرنے میں کوشش کرتے تھے مگر افسوس کہ ہمارے زمانہ کے مسلمان بادشاہ ایسے نالائق ہیں جن کے پاس ایک بھی عالم فاضل یا حکیم فیلسوف نہیں ہوتا نہ ان کو دینی علوم کی قدر ہے نہ دنیاوی علوم کی بلکہ سچ پوچھو تو علم ولیاقت کے دشمن ہیں ۔ ان کے ملک میں کوئی شاذونادر دین کا عالم پیدا ہو گیا تو اس کو ستانے بے عزت کرنے اور نکالنے کے فکر میں رہتے ہیں۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ اگر یہی لیل ونہار رہے تو ایسے بادشاہوں کی حکومت کو بھی چراغ سحری سمجھنا چاہیے ۔ ( وحیدی ) یہ پرانی باتیں ہیں اب تو گیا دور سرمایہ داری گیا۔ دکھا کر تماشہ مداری گیا ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دین کی ایک بات پوچھ کر ابن عباس رضی اللہ عنہما کی فضیلت بوڑھوں پر ظاہر کردی جیسے اللہ تعالی نے آدم کو علم دے کر بڑی بڑی عمر والے فرشتوں پر ان کی فضیلت ثابت کر دی اور ان فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو ۔ حدیث میں وفات نبوی کی طرف اشارہ ہے۔ اس کے یہاں اندراج کا یہی مقصد ہے۔ سورۃ شریفہ میں اشارہ تھا کہ ہر کمالے راز والے ۔ ہر زوالے را کمالے۔ اس حدیث کے ذیل مولانا وحید الزماں کی تقریر دل پذیر یہ ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کا عمل اس پر تھا بزرگی عقل است نہ بہ سال ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما اس وقت کے بڑے عالم تھے اور عالم گو جوان ہو مگر علم کی فضیلت سے وہ بوڑھوں کے برابر بلکہ ان سے بھی افضل سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے پیشوا خلفائے راشدین اور دوسرے شاہان اسلام نے علم کی ایسی قدر دانی کی ہے جب مسلمان علم حاصل کرنے میں کوشش کرتے تھے مگر افسوس کہ ہمارے زمانہ کے مسلمان بادشاہ ایسے نالائق ہیں جن کے پاس ایک بھی عالم فاضل یا حکیم فیلسوف نہیں ہوتا نہ ان کو دینی علوم کی قدر ہے نہ دنیاوی علوم کی بلکہ سچ پوچھو تو علم ولیاقت کے دشمن ہیں ۔ ان کے ملک میں کوئی شاذونادر دین کا عالم پیدا ہو گیا تو اس کو ستانے بے عزت کرنے اور نکالنے کے فکر میں رہتے ہیں۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ اگر یہی لیل ونہار رہے تو ایسے بادشاہوں کی حکومت کو بھی چراغ سحری سمجھنا چاہیے ۔ ( وحیدی ) یہ پرانی باتیں ہیں اب تو گیا دور سرمایہ داری گیا۔ دکھا کر تماشہ مداری گیا ۔