كِتَابُ المَغَازِي بَابُ دُخُولِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ أَعْلَى مَكَّةَ صحيح وَقَالَ اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي يُونُسُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ يَوْمَ الفَتْحِ مِنْ أَعْلَى مَكَّةَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، مُرْدِفًا أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، وَمَعَهُ بِلاَلٌ، وَمَعَهُ عُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ مِنَ الحَجَبَةِ، حَتَّى أَنَاخَ فِي المَسْجِدِ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَأْتِيَ بِمِفْتَاحِ البَيْتِ، فَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ [ص:149] أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، وَبِلاَلٌ، وَعُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ، فَمَكَثَ فِيهِ نَهَارًا طَوِيلًا، ثُمَّ خَرَجَ» فَاسْتَبَقَ النَّاسُ، فَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ أَوَّلَ مَنْ دَخَلَ، فَوَجَدَ بِلاَلًا وَرَاءَ البَابِ قَائِمًا، فَسَأَلَهُ: أَيْنَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَأَشَارَ لَهُ إِلَى المَكَانِ الَّذِي صَلَّى فِيهِ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَنَسِيتُ أَنْ أَسْأَلَهُ كَمْ صَلَّى مِنْ سَجْدَةٍ
کتاب: غزوات کے بیان میں
باب: نبی کریم ﷺ کا شہر کے بالائی جانب سے مکہ میں داخل ہونا
اور لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھے نافع نے خبر دی اور انہیں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر فتح مکہ کے دن مکہ کے بالائی علاقہ کی طرف سے شہر میں داخل ہوئے ۔ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما آپ کی سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے ۔ آپ کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ اور کعبہ کے حاجب عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ بھی تھے ۔ آخر اپنے اونٹ کو آپ نے مسجد ( کے قریب باہر ) بٹھایا اور بیت اللہ کی کنجی لانے کا حکم دیا پھر آپ بیت اللہ کے اندر تشریف لے گئے ۔ آپ کے ساتھ اسامہ بن زید‘ بلال اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہم بھی تھے ۔ آپ اندر کافی دیر تک ٹھہرے ‘ جب باہر تشریف لائے تو لوگ جلدی سے آگے بڑھے ۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سب سے پہلے اندر جانے والوں میں تھے ۔ انہوں نے بیت اللہ کے دروازے کے پیچھے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو کھڑے ہوئے دیکھا اور ان سے پوچھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاں نماز پڑھی تھی ۔ انہوں نے وہ جگہ بتلائی جہاں آپ نے نماز پڑھی تھی ۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں یہ پوچھنا بھول گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں کتنی رکعتیں پڑھی تھیں ۔
تشریح :
ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ آپ نے کعبہ کے اندر نماز نہیں پڑھی لیکن بلال رضی اللہ عنہ کی روایت میں نماز پڑھنے کاذکر ہے اور یہی صحیح ہے ممکن ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما باہر ہوں ان کو آپ کے نماز پڑھنے کا علم نہ ہو اہو آپ نے فراغت کے بعد کعبے کی کنجی پھر عثمان رضی اللہ عنہ کے حوالہ کردی اور فرمایا کہ یہ ہمیشہ تیرے ہی خاندان میں رہے گی۔ یہ میں نے تجھ کو نہیں دی بلکہ اللہ تعالی نے دی ہے اور جو کوئی ظالم ہوگا وہ یہ کنجی تجھ سے چھینے گا۔ آج تک یہ کنجی اسی خاندان شیبی کے اندر محفوظ ہے کعبہ شریف جب بھی کھولا جاتا ہے وہی لوگ آکر کھولتے ہیں ۔ صدق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ سنہ 1952ءکے حج میں میں کعبہ شریف میں داخل ہوا تھا اور دروازہ پر شیبی خاندان کے بزرگ کو میں نے دیکھا تھا جو بہت ہی سفید ریش بزرگ تھے غفراللہ لہ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ آپ نے کعبہ کے اندر نماز نہیں پڑھی لیکن بلال رضی اللہ عنہ کی روایت میں نماز پڑھنے کاذکر ہے اور یہی صحیح ہے ممکن ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما باہر ہوں ان کو آپ کے نماز پڑھنے کا علم نہ ہو اہو آپ نے فراغت کے بعد کعبے کی کنجی پھر عثمان رضی اللہ عنہ کے حوالہ کردی اور فرمایا کہ یہ ہمیشہ تیرے ہی خاندان میں رہے گی۔ یہ میں نے تجھ کو نہیں دی بلکہ اللہ تعالی نے دی ہے اور جو کوئی ظالم ہوگا وہ یہ کنجی تجھ سے چھینے گا۔ آج تک یہ کنجی اسی خاندان شیبی کے اندر محفوظ ہے کعبہ شریف جب بھی کھولا جاتا ہے وہی لوگ آکر کھولتے ہیں ۔ صدق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ سنہ 1952ءکے حج میں میں کعبہ شریف میں داخل ہوا تھا اور دروازہ پر شیبی خاندان کے بزرگ کو میں نے دیکھا تھا جو بہت ہی سفید ریش بزرگ تھے غفراللہ لہ۔