كِتَابُ المَغَازِي بَابٌ: أَيْنَ رَكَزَ النَّبِيُّ ﷺ الرَّايَةَ يَوْمَ الفَتْحِ؟ صحيح حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الفَضْلِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ يَوْمَ الفَتْحِ، وَحَوْلَ البَيْتِ سِتُّونَ وَثَلاَثُ مِائَةِ نُصُبٍ فَجَعَلَ يَطْعُنُهَا بِعُودٍ فِي يَدِهِ، وَيَقُولُ: «جَاءَ الحَقُّ وَزَهَقَ البَاطِلُ، جَاءَ الحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ البَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ»
کتاب: غزوات کے بیان میں
باب: فتح مکہ کے دن نبی کریم ﷺ نے جھنڈا کہاں گاڑا تھا ؟
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو سلیمان بن عیینہ نے خبر دی ‘ انہیں ابن ابی نجیح نے ‘ انہیں مجاہد نے ‘ انہیں ابو معمر نے اور ان سے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ فتح مکہ کے دن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو بیت اللہ کے چاروں طرف تین سو ساٹھ بت تھے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک چھڑی سے جو دست مبارک میں تھی ‘ مارتے جاتے تھے اور اس آیت کی تلاوت کرتے جاتے کہ ” حق قائم ہو گیا اور باطل مغلوب ہو گیا ‘ حق قائم ہو گیا اور باطل سے نہ شروع میں کچھ ہو سکا ہے نہ آئند ہ کچھ ہو سکتا ہے ۔
تشریح :
پہلی آیت سورۃ بنی اسرائیل میں اور دوسری آیت سورۃ سبا میں ہے۔ حق سے مراد دین اسلام اور باطل سے بت اور شیطان مراد ہے ۔ باطل کا آغاز اور انجام سب خراب ہی خراب ہے۔
پہلی آیت سورۃ بنی اسرائیل میں اور دوسری آیت سورۃ سبا میں ہے۔ حق سے مراد دین اسلام اور باطل سے بت اور شیطان مراد ہے ۔ باطل کا آغاز اور انجام سب خراب ہی خراب ہے۔