كِتَابُ المَغَازِي بَابُ غَزْوَةِ الفَتْحِ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ قَالَ أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي رَافِعٍ يَقُولُ سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَالزُّبَيْرَ وَالْمِقْدَادَ فَقَالَ انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ فَإِنَّ بِهَا ظَعِينَةً مَعَهَا كِتَابٌ فَخُذُوا مِنْهَا قَالَ فَانْطَلَقْنَا تَعَادَى بِنَا خَيْلُنَا حَتَّى أَتَيْنَا الرَّوْضَةَ فَإِذَا نَحْنُ بِالظَّعِينَةِ قُلْنَا لَهَا أَخْرِجِي الْكِتَابَ قَالَتْ مَا مَعِي كِتَابٌ فَقُلْنَا لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَنُلْقِيَنَّ الثِّيَابَ قَالَ فَأَخْرَجَتْهُ مِنْ عِقَاصِهَا فَأَتَيْنَا بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا فِيهِ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى نَاسٍ بِمَكَّةَ مِنْ الْمُشْرِكِينَ يُخْبِرُهُمْ بِبَعْضِ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا حَاطِبُ مَا هَذَا قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَا تَعْجَلْ عَلَيَّ إِنِّي كُنْتُ امْرَأً مُلْصَقًا فِي قُرَيْشٍ يَقُولُ كُنْتُ حَلِيفًا وَلَمْ أَكُنْ مِنْ أَنْفُسِهَا وَكَانَ مَنْ مَعَكَ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ مَنْ لَهُمْ قَرَابَاتٌ يَحْمُونَ أَهْلِيهِمْ وَأَمْوَالَهُمْ فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِي ذَلِكَ مِنْ النَّسَبِ فِيهِمْ أَنْ أَتَّخِذَ عِنْدَهُمْ يَدًا يَحْمُونَ قَرَابَتِي وَلَمْ أَفْعَلْهُ ارْتِدَادًا عَنْ دِينِي وَلَا رِضًا بِالْكُفْرِ بَعْدَ الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَا إِنَّهُ قَدْ صَدَقَكُمْ فَقَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ فَقَالَ إِنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ عَلَى مَنْ شَهِدَ بَدْرًا فَقَالَ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ فَأَنْزَلَ اللَّهُ السُّورَةَ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُمْ مِنْ الْحَقِّ إِلَى قَوْلِهِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ
کتاب: غزوات کے بیان میں
باب: غزوئہ فتح مکہ کا بیان
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا ‘ انہیں حسن بن محمد بن علی نے خبر دی اور انہوں نے عبید اللہ بن رافع سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سنا ‘انہوں نے بیان کیاکہ مجھے اور زبیر اور مقداد رضی اللہ عنہم کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ کیا اور ہدایت کی کہ ( مکہ کے راستے پر ) چلے جانا جب تم مقام روضہ خاخ پر پہنچو تو وہان تمہیں ہودج میں ایک عورت ملے گی ۔ وہ ایک خط لیے ہوئے ہے‘ تم اس سے وہ لے لینا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم روانہ ہوئے ۔ ہمارے گھوڑے ہمیں تیزی کے ساتھ لیے جا رہے تھے ۔ جب ہم روضہ خاخ پر پہنچے تو واقعی وہاں ہمیں ایک عورت ہودج میں سوار ملی ( جس کا نام سارا یا کناد ہے ) ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال ۔ وہ کہنے لگی کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے لیکن جب ہم نے اس سے یہ کہا کہ اگر تو نے خود سے خط نکال کر ہمیں نہیں دیا تو ہم تیرا کپڑا اتار کر ( تلاشی لیں گے ) تب اس نے اپنی چوٹی میں سے وہ خط نکالا ۔ ہم وہ خط لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس ہوئے ۔ اس میں یہ لکھا تھا کہ حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے چند مشرکین مکہ کے نام ( صفوان بن امیہ اور سہیل بن عمرو اور عکرمہ بن ابو جہل ) پھر انہوں نے اس میں مشرکین کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض بھیدوں کی خبر بھی دی تھی ۔ ( آپ فوج لے کر آنا چاہتے ہیں ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ‘ اے حاطب ! تو نے یہ کیا کیا ؟ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ! میرے بارے میں فیصلہ کرنے میں آپ جلدی نہ فرمائیں ‘ میں اس کی وجہ عرض کرتا ہوں ۔ بات یہ ہے میں دوسرے مہاجرین کی طرح قریش کے خاندان سے نہیں ہوں ‘ صرف ان کا حلیف بن کر ان سے جڑ گیا ہوں اور دوسرے مہاجرین کے وہاں عزیز و اقرباءہیں جو ان کے گھر بار مال واسباب کی نگرانی کرتے ہیں ۔ میں نے چاہا کہ خیر جب میں خاندان کی رو سے ان کا شریک نہیں ہوں تو کچھ احسان ہی ان پر ایسا کردوں جس کے خیال سے وہ میرے کنبہ والوں کو نہ ستائیں ۔ میں نے یہ کام اپنے دین سے پھر کر نہیں کیا اور نہ اسلام لانے کے بعد میرے دل میں کفر کی حمایت کا جذبہ ہے ۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ واقعی انہوں نے تمہارے سامنے سچی بات کہہ دی ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اجازت ہو تو میں اس منافق کی گردن اڑادوں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ غزوئہ بدر میں شریک رہے ہیں اور تمہیں کیا معلوم اللہ تعالیٰ جو غزوئہ بدر میں شریک ہونے والوں کے کام سے واقف ہے سورۃ ممتحنہ میں اس نے ان کے متعلق خود فرمادیا ہے کہ ” جو چاہو کرو میں نے تمہارے گناہ معاف کر دیئے “ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ” اے وہ لوگو جو ایمان لاچکے ہو ! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ کہ ان سے تم اپنی محبت کا اظہار کرتے رہو ۔ آیت ” فقد ضل سوآءالسبیل تک ۔
تشریح :
حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے مشرکین مکہ کو لکھا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ پر فوج لے کر آنا چاہتے ہیں تم اپنا انتظام کر لو ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو کچھ کہا وہ ظاہری قانونی سیاست کے مطابق تھا ۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی سچائی وحی سے معلوم ہو گئی ۔ لہذا آپ نے ان کی غلطی سے در گزر فرمایا ۔ معلوم ہوا کہ بعض امور میں محض ظاہری وجوہ کی بنا پر فتوی ٹھوک دینا درست نہیں ہے ۔ مفتی کو لازم ہے کہ ظاہر وباطن کے جملہ امور وحالات پر خوب غور وخوض کرکے فتوی نویسی کرے۔ روایت میں غزوئہ فتح مکہ کے عزم کا ذکر ہے یہی باب سے وجہ مطابقت ہے۔
فتح الباری میں حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کے خط کے یہ الفاظ منقول ہوئے ہیں: یا معشر قریش فان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاءکم بجیش کا للیل یسیرکالسیل فواللہ لو جاءکم وحدہ لنصرہ اللہ وانجزلہ وعدہ فانظر وا لا نفسکم والسلام۔ وا قدی نے یہ لفظ نقل کئے ہیں ۔ ان حاطب الی سہیل بن عمرو و صفوان بن اسد وعکرمہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذن فی الناس بالغزو ولا ارادہ یرید غیرکم وقداحببت ان یکون لی عند کم ید۔ ان کا خلاصہ یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ا یک لشکر جرار لے کر تمہارے اوپر چڑھائی کر نے والے ہیں تم لوگ ہوشیار ہو جاؤ۔ میں نے تمہارے ساتھ احسان کرنے کے لیے ایسا لکھا ہے۔
حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے مشرکین مکہ کو لکھا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ پر فوج لے کر آنا چاہتے ہیں تم اپنا انتظام کر لو ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو کچھ کہا وہ ظاہری قانونی سیاست کے مطابق تھا ۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی سچائی وحی سے معلوم ہو گئی ۔ لہذا آپ نے ان کی غلطی سے در گزر فرمایا ۔ معلوم ہوا کہ بعض امور میں محض ظاہری وجوہ کی بنا پر فتوی ٹھوک دینا درست نہیں ہے ۔ مفتی کو لازم ہے کہ ظاہر وباطن کے جملہ امور وحالات پر خوب غور وخوض کرکے فتوی نویسی کرے۔ روایت میں غزوئہ فتح مکہ کے عزم کا ذکر ہے یہی باب سے وجہ مطابقت ہے۔
فتح الباری میں حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کے خط کے یہ الفاظ منقول ہوئے ہیں: یا معشر قریش فان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاءکم بجیش کا للیل یسیرکالسیل فواللہ لو جاءکم وحدہ لنصرہ اللہ وانجزلہ وعدہ فانظر وا لا نفسکم والسلام۔ وا قدی نے یہ لفظ نقل کئے ہیں ۔ ان حاطب الی سہیل بن عمرو و صفوان بن اسد وعکرمہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذن فی الناس بالغزو ولا ارادہ یرید غیرکم وقداحببت ان یکون لی عند کم ید۔ ان کا خلاصہ یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ا یک لشکر جرار لے کر تمہارے اوپر چڑھائی کر نے والے ہیں تم لوگ ہوشیار ہو جاؤ۔ میں نے تمہارے ساتھ احسان کرنے کے لیے ایسا لکھا ہے۔