كِتَابُ الصَّلاَةِ بَابٌ: هَلْ تُنْبَشُ قُبُورُ مُشْرِكِي الجَاهِلِيَّةِ، وَيُتَّخَذُ مَكَانُهَا مَسَاجِدَ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ المُؤْمِنِينَ، أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ، وَأُمَّ سَلَمَةَ ذَكَرَتَا كَنِيسَةً رَأَيْنَهَا بِالحَبَشَةِ فِيهَا تَصَاوِيرُ، فَذَكَرَتَا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «إِنَّ أُولَئِكَ إِذَا كَانَ فِيهِمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فَمَاتَ، بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا، وَصَوَّرُوا فِيهِ تِلْكَ الصُّوَرَ، فَأُولَئِكَ شِرَارُ الخَلْقِ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ القِيَامَةِ»
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
باب: دور جاہلیت کے مشرکوں کی قبروں کو
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے ہشام بن عروہ کے واسطہ سے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے باپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ خبر پہنچائی کہ ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما دونوں نے ایک کلیسا کا ذکر کیا جسے انھوں نے حبشہ میں دیکھا تو اس میں مورتیں ( تصویریں ) تھیں۔ انھوں نے اس کا تذکرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ان کا یہ قاعدہ تھا کہ اگر ان میں کوئی نیکوکار ( نیک ) شخص مر جاتا تو وہ لوگ اس کی قبر پر مسجد بناتے اور اس میں یہی مورتیں ( تصویریں ) بنا دیتے پس یہ لوگ خدا کی درگاہ میں قیامت کے دن تمام مخلوق میں برے ہوں گے۔
تشریح :
یہ اثر موصولاً ابونعیم نے کتاب الصلوٰۃ میں نکالا ہے جو حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے شیوخ میں سے ہیں۔ تفصیل یہ ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو ایک قبر کے پاس نماز پڑھتے دیکھا تو قبرقبر کہہ کر ان کواطلاع فرمائی مگر وہ قمر سمجھے بعد میں سمجھ جانے پر وہ قبر سے دور ہو گئے اور نماز ادا کی۔ اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نکالا کہ نماز جائز ہوگی اگرفاسد ہوتی تو دوبارہ شروع کرتے۔ ( فتح )
آج کے زمانہ میں جب قبر پرستی عام ہے بلکہ چلہ پرستی اور شدہ پرستی اورتعزیہ پرستی سب زوروں پر ہے، توان حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق قبروں کے پاس مسجد بنانے سے منع کرنا چاہئیے اور اگر کوئی کسی قبر کو سجدہ کرے یا قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے تواس کے مشرک ہونے میں کیا شک ہو سکتا ہے؟
یہ اثر موصولاً ابونعیم نے کتاب الصلوٰۃ میں نکالا ہے جو حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے شیوخ میں سے ہیں۔ تفصیل یہ ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو ایک قبر کے پاس نماز پڑھتے دیکھا تو قبرقبر کہہ کر ان کواطلاع فرمائی مگر وہ قمر سمجھے بعد میں سمجھ جانے پر وہ قبر سے دور ہو گئے اور نماز ادا کی۔ اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نکالا کہ نماز جائز ہوگی اگرفاسد ہوتی تو دوبارہ شروع کرتے۔ ( فتح )
آج کے زمانہ میں جب قبر پرستی عام ہے بلکہ چلہ پرستی اور شدہ پرستی اورتعزیہ پرستی سب زوروں پر ہے، توان حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق قبروں کے پاس مسجد بنانے سے منع کرنا چاہئیے اور اگر کوئی کسی قبر کو سجدہ کرے یا قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے تواس کے مشرک ہونے میں کیا شک ہو سکتا ہے؟