‌صحيح البخاري - حدیث 4264

كِتَابُ المَغَازِي بَابُ غَزْوَةِ مُؤْتَةَ مِنْ أَرْضِ الشَّأْمِ صحيح حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ عَنْ عَامِرٍ قَالَ كَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا حَيَّا ابْنَ جَعْفَرٍ قَالَ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا ابْنَ ذِي الْجَنَاحَيْنِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4264

کتاب: غزوات کے بیان میں باب: غزوئہ موتہ کا بیان جو سر زمین شام میں سنہ 8ھ میں ہوا تھا مجھ سے محمد بن ابی بکر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عمر بن علی نے بیان کیا ‘ ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا ‘ ان سے عامر شعبی نے بیان کیا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما جب جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بیٹے کے لیے سلام بھیجتے تو السلام علیک یا ابن ذی الجناحین کہتے ۔
تشریح : اے دو پروں والے کے بےٹے ! تجھ پر سلام ہو حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے بیٹے کا نام عبداللہ تھا۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں فالمراد بالجناحین صفۃ ملکیۃ وقوۃ روحانیۃ اعطیھا جعفر یعنی سہیلی نے کہا کہ جناحین سے مراد وہ صفات ملکی وقوت روحانی ہے جو حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کو دی گئی ۔ مگر واذا لم یثبت خبر فی بیان کیفیتھا فنؤ من بھا من غیر بحث عن حقیقتھا ( فتح الباری ) یعنی جب ان پروں کی کیفیت کے بارے میں کوئی خبر ثابت نہیں تو ہم ان کی حقیقت کی بحث میں نہیں پڑتے بلکہ جیسا حدیث میں وارد ہوا اس پر ایمان لاتے ہیں۔ اے دو پروں والے کے بےٹے ! تجھ پر سلام ہو حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے بیٹے کا نام عبداللہ تھا۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں فالمراد بالجناحین صفۃ ملکیۃ وقوۃ روحانیۃ اعطیھا جعفر یعنی سہیلی نے کہا کہ جناحین سے مراد وہ صفات ملکی وقوت روحانی ہے جو حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کو دی گئی ۔ مگر واذا لم یثبت خبر فی بیان کیفیتھا فنؤ من بھا من غیر بحث عن حقیقتھا ( فتح الباری ) یعنی جب ان پروں کی کیفیت کے بارے میں کوئی خبر ثابت نہیں تو ہم ان کی حقیقت کی بحث میں نہیں پڑتے بلکہ جیسا حدیث میں وارد ہوا اس پر ایمان لاتے ہیں۔