كِتَابُ المَغَازِي بَابُ غَزْوَةِ مُؤْتَةَ مِنْ أَرْضِ الشَّأْمِ صحيح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ وَاقِدٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَى زَيْدًا وَجَعْفَرًا وَابْنَ رَوَاحَةَ لِلنَّاسِ قَبْلَ أَنْ يَأْتِيَهُمْ خَبَرُهُمْ فَقَالَ أَخَذَ الرَّايَةَ زَيْدٌ فَأُصِيبَ ثُمَّ أَخَذَ جَعْفَرٌ فَأُصِيبَ ثُمَّ أَخَذَ ابْنُ رَوَاحَةَ فَأُصِيبَ وَعَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ حَتَّى أَخَذَ الرَّايَةَ سَيْفٌ مِنْ سُيُوفِ اللَّهِ حَتَّى فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ
کتاب: غزوات کے بیان میں
باب: غزوئہ موتہ کا بیان جو سر زمین شام میں سنہ 8ھ میں ہوا تھا
ہم سے احمدبن واقد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب سختیانی نے ‘ ان سے حمید بن ہلال نے اور ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید ‘ جعفر اور عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم کی شہادت کی خبر اس وقت صحابہ رضی اللہ عنہم کو د ے دی تھی جب ابھی ان کے متعلق کوئی خبر نہیں آئی تھی ۔ آپ فرماتے جا رہے تھے کہ اب زید رضی اللہ عنہ جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں ‘ اب وہ شہید کر دیئے گئے ‘اب جعفر رضی اللہ عنہ نے جھنڈا اٹھالیا ‘ وہ بھی شہید کر دیئے گئے ۔ اب ابن رواحہ رضی اللہ عنہ نے جھنڈا اٹھا لیا ‘ وہ بھی شہید کر دیئے گئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے ۔ آخر اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار خالدبن ولید رضی اللہ عنہ نے جھنڈا اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اللہ نے ان کے ہاتھ پر فتح عنایت فرمائی ۔
تشریح :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس غزوہ میں شریک نہ تھے۔ آپ یہ سب خبریں مدینہ میں بیٹھ کر صحابہ رضی اللہ عنہم کو دے رہے تھے اور آپ کو بذیعہ وحی یہ سارے حالات معلوم ہو گئے تھے۔ آپ غیب داں نہیں تھے۔ واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اس جنگ میں دائیں ہاتھ میں جھنڈا تھامے ہوئے تھے۔ دشمنوں نے وہ ہاتھ کاٹ ڈالا تو انہوں نے بائیں ہاتھ میں جھنڈا لے لیا ۔ دشمنوں نے اس کو بھی کاٹ ڈالا وہ شہید ہو گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے ان کو جنت میں دو بازو پرندے کی طرح کے بخش دیئے ہیں وہ ان سے جنت میں جہاں چاہیں اڑتے پھرتے ہیں ۔ لفظ طیار کے معنی اڑنے والے کے ہیں ۔ اسی سے آپ کو جعفر طیار رضی اللہ عنہ کے نام سے پکارا گیا رضی اللہ عنہ وارضاہ۔ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے دو بیٹے عبد اللہ اور محمد نامی تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر بڑی شفقت فرمائی ۔ موسی بن عقبہ نے مغازی میں ذکر کیا ہے کہ یعلی بن امیہ اہل موتہ کی خبر لے کر خدمت نبوی میں حاضر ہوئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اگر تم چاہو تو موتہ والوں کا حال مجھ کو سناؤ ورنہ میں خود ہی تم کو ان کا پورا حال سنا دیتا ہوں۔ ( جو اللہ نے تمہارے آنے سے پہلے مجھ کو وحی کے ذریعہ بتلادیا ہے ) چنانچہ خود آپ نے ان کا پورا حال بیان فرمادیا جسے سن کر یعلی بن امیہ کہنے لگے کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو نبی بنا کر بھیجا ہے کہ آپ نے اہل موتہ کے حالات سنانے میں ایک حرف کی بھی کمی نہیں چھوڑی ہے ۔ آپ کا بیان حرف بہ حرف صحیح ہے۔ ( قسطلانی )
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس غزوہ میں شریک نہ تھے۔ آپ یہ سب خبریں مدینہ میں بیٹھ کر صحابہ رضی اللہ عنہم کو دے رہے تھے اور آپ کو بذیعہ وحی یہ سارے حالات معلوم ہو گئے تھے۔ آپ غیب داں نہیں تھے۔ واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اس جنگ میں دائیں ہاتھ میں جھنڈا تھامے ہوئے تھے۔ دشمنوں نے وہ ہاتھ کاٹ ڈالا تو انہوں نے بائیں ہاتھ میں جھنڈا لے لیا ۔ دشمنوں نے اس کو بھی کاٹ ڈالا وہ شہید ہو گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے ان کو جنت میں دو بازو پرندے کی طرح کے بخش دیئے ہیں وہ ان سے جنت میں جہاں چاہیں اڑتے پھرتے ہیں ۔ لفظ طیار کے معنی اڑنے والے کے ہیں ۔ اسی سے آپ کو جعفر طیار رضی اللہ عنہ کے نام سے پکارا گیا رضی اللہ عنہ وارضاہ۔ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے دو بیٹے عبد اللہ اور محمد نامی تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر بڑی شفقت فرمائی ۔ موسی بن عقبہ نے مغازی میں ذکر کیا ہے کہ یعلی بن امیہ اہل موتہ کی خبر لے کر خدمت نبوی میں حاضر ہوئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اگر تم چاہو تو موتہ والوں کا حال مجھ کو سناؤ ورنہ میں خود ہی تم کو ان کا پورا حال سنا دیتا ہوں۔ ( جو اللہ نے تمہارے آنے سے پہلے مجھ کو وحی کے ذریعہ بتلادیا ہے ) چنانچہ خود آپ نے ان کا پورا حال بیان فرمادیا جسے سن کر یعلی بن امیہ کہنے لگے کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو نبی بنا کر بھیجا ہے کہ آپ نے اہل موتہ کے حالات سنانے میں ایک حرف کی بھی کمی نہیں چھوڑی ہے ۔ آپ کا بیان حرف بہ حرف صحیح ہے۔ ( قسطلانی )