‌صحيح البخاري - حدیث 4250

كِتَابُ المَغَازِي بَابُ غَزْوَةِ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ صحيح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ أَمَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُسَامَةَ عَلَى قَوْمٍ فَطَعَنُوا فِي إِمَارَتِهِ فَقَالَ إِنْ تَطْعَنُوا فِي إِمَارَتِهِ فَقَدْ طَعَنْتُمْ فِي إِمَارَةِ أَبِيهِ مِنْ قَبْلِهِ وَايْمُ اللَّهِ لَقَدْ كَانَ خَلِيقًا لِلْإِمَارَةِ وَإِنْ كَانَ مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ وَإِنَّ هَذَا لَمِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ بَعْدَهُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4250

کتاب: غزوات کے بیان میں باب: غزوئہ زید بن حارثہ کا بیان ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ‘ ان سے عبد اللہ بن دینار نے بیان کیا اور ان سے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک جماعت کا امیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو بنایا ۔ ان کی امارت پر بعض لوگوں کو اعتراض ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج تم کو اس کی امارت پر اعتراض ہے تم ہی کچھ دن پہلے اس کے باپ کی امارت پر اعتراض کر چکے ہو ۔ حالانکہ خدا کی قسم وہ امارت کے مستحق واہل تھے ۔ اس کے علاوہ وہ مجھے سب سے زیادہ عزیز تھے جس طرح یہ اسامہ رضی اللہ عنہ ان کے بعد مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے ۔
تشریح : ان طعنہ کرنے والوں کا سردار عیاش بن ابی ربیعہ تھا وہ کہنے لگا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لڑکے کو مہاجرین کا افسر بنا دیا ہے ۔ اس پر دوسرے لوگ بھی گفتگو کرنے لگے۔ یہ خبر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو پہنچی۔ انہوں نے ان لوگوں کا رد کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی۔ آپ بہت خفا ہوئے اور یہ خطبہ مذکور ہ سنایا۔ اسی کو جیش اسامہ کہتے ہیں ۔ مرض الموت میں آپ نے وصیت فرمائی کہ اسامہ کا لشکر روانہ کر دینا۔ اسامہ رضی اللہ عنہ کے سردارمقرر کرنے میں یہ مصلحت تھی کہ ان کے والد ان کافروں کے ہاتھوں سے مارے گئے تھے۔ اسامہ کی دلجوئی کے علاوہ یہ بھی خیال تھا کہ وہ اپنے والد کی شہادت یاد کرکے ان کافروں سے دل کھول کرلڑیں گے۔ ( اس حدیث سے یہ بھی نکلتا ہے کہ افضل کے ہوتے ہوئے مفضول کی سرداری جائز ہے ۔ کیو نکہ ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما یقینا اسامہ رضی اللہ عنہ سے افضل تھے۔ ان طعنہ کرنے والوں کا سردار عیاش بن ابی ربیعہ تھا وہ کہنے لگا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لڑکے کو مہاجرین کا افسر بنا دیا ہے ۔ اس پر دوسرے لوگ بھی گفتگو کرنے لگے۔ یہ خبر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو پہنچی۔ انہوں نے ان لوگوں کا رد کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی۔ آپ بہت خفا ہوئے اور یہ خطبہ مذکور ہ سنایا۔ اسی کو جیش اسامہ کہتے ہیں ۔ مرض الموت میں آپ نے وصیت فرمائی کہ اسامہ کا لشکر روانہ کر دینا۔ اسامہ رضی اللہ عنہ کے سردارمقرر کرنے میں یہ مصلحت تھی کہ ان کے والد ان کافروں کے ہاتھوں سے مارے گئے تھے۔ اسامہ کی دلجوئی کے علاوہ یہ بھی خیال تھا کہ وہ اپنے والد کی شہادت یاد کرکے ان کافروں سے دل کھول کرلڑیں گے۔ ( اس حدیث سے یہ بھی نکلتا ہے کہ افضل کے ہوتے ہوئے مفضول کی سرداری جائز ہے ۔ کیو نکہ ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما یقینا اسامہ رضی اللہ عنہ سے افضل تھے۔