كِتَابُ المَغَازِي بَابُ غَزْوَةِ خَيْبَرَ صحيح حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ العَلاَءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا بُرَيْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَلَغَنَا مَخْرَجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ بِاليَمَنِ، فَخَرَجْنَا مُهَاجِرِينَ إِلَيْهِ أَنَا وَأَخَوَانِ لِي أَنَا أَصْغَرُهُمْ، أَحَدُهُمَا أَبُو بُرْدَةَ، وَالآخَرُ أَبُو رُهْمٍ، إِمَّا قَالَ: بِضْعٌ، وَإِمَّا قَالَ: فِي ثَلاَثَةٍ وَخَمْسِينَ، أَوِ اثْنَيْنِ وَخَمْسِينَ رَجُلًا مِنْ قَوْمِي، فَرَكِبْنَا سَفِينَةً، فَأَلْقَتْنَا سَفِينَتُنَا إِلَى النَّجَاشِيِّ بِالحَبَشَةِ، فَوَافَقْنَا جَعْفَرَ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، فَأَقَمْنَا مَعَهُ حَتَّى قَدِمْنَا جَمِيعًا، فَوَافَقْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ افْتَتَحَ خَيْبَرَ، وَكَانَ أُنَاسٌ مِنَ النَّاسِ يَقُولُونَ لَنَا، يَعْنِي لِأَهْلِ السَّفِينَةِ: سَبَقْنَاكُمْ بِالهِجْرَةِ، وَدَخَلَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ، وَهِيَ مِمَّنْ قَدِمَ مَعَنَا، عَلَى حَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَائِرَةً، وَقَدْ كَانَتْ هَاجَرَتْ إِلَى النَّجَاشِيِّ فِيمَنْ هَاجَرَ، فَدَخَلَ عُمَرُ عَلَى حَفْصَةَ، وَأَسْمَاءُ عِنْدَهَا، فَقَالَ عُمَرُ حِينَ رَأَى أَسْمَاءَ: مَنْ هَذِهِ؟ قَالَتْ: أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ، قَالَ عُمَرُ: الحَبَشِيَّةُ هَذِهِ البَحْرِيَّةُ هَذِهِ؟ قَالَتْ أَسْمَاءُ: نَعَمْ، قَالَ: سَبَقْنَاكُمْ بِالهِجْرَةِ، فَنَحْنُ أَحَقُّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكُمْ، فَغَضِبَتْ وَقَالَتْ: كَلَّا وَاللَّهِ، كُنْتُمْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُطْعِمُ جَائِعَكُمْ، وَيَعِظُ جَاهِلَكُمْ، وَكُنَّا فِي دَارِ - أَوْ فِي أَرْضِ - البُعَدَاءِ البُغَضَاءِ بِالحَبَشَةِ، وَذَلِكَ فِي اللَّهِ وَفِي رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَايْمُ اللَّهِ لاَ أَطْعَمُ طَعَامًا وَلاَ أَشْرَبُ شَرَابًا، حَتَّى أَذْكُرَ مَا قُلْتَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ كُنَّا نُؤْذَى وَنُخَافُ، وَسَأَذْكُرُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَسْأَلُهُ، وَاللَّهِ لاَ أَكْذِبُ وَلاَ أَزِيغُ، وَلاَ أَزِيدُ عَلَيْهِ،
کتاب: غزوات کے بیان میں باب: غزوئہ خیبر کا بیان مجھ سے محمد بن علاءنے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے برید بن عبد اللہ نے بیان کیا ‘ ان سے ابو بردہ نے اور ان سے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے متعلق خبر ملی تو ہم یمن میں تھے ۔ اس لیے ہم بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںہجرت کی نیت سے نکل پڑے ۔ میں اور میرے دو بھائی ‘ میں دونوں سے چھوٹا تھا ۔ میرے ایک بھائی کا نام ابو بردہ رضی اللہ عنہ تھا اور دوسرے کا ابو رہم ۔ انہوں نے کہا کہ کچھ اوپر پچاس یا انہوںنے یوں بیان کیا کہ تریپن ( ۳۵ ) یا باون ( ۲۵ ) میری قوم کے لوگ ساتھ تھے ۔ ہم کشتی پر سوار ہوئے لیکن ہماری کشتی نے ہمیں نجاشی کے ملک حبشہ میں لا ڈالا ۔ وہاں ہماری ملاقات جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے ہوگئی ‘ جو پہلے ہی مکہ سے ہجرت کر کے وہا ںپہنچ چکے تھے ۔ ہم نے وہاں انہیں کے ساتھ قیام کیا ‘ پھر ہم سب مدینہ ساتھ روانہ ہوئے ۔ یہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس وقت پہنچے جب آپ خیبر فتح کر چکے تھے ۔ کچھ لوگ ہم کشتی والوں سے کہنے لگے کہ ہم نے تم سے پہلے ہجرت کی ہے اور اسماءبنت عمیس رضی اللہ عنہا جو ہمارے ساتھ مدینہ آئی تھیں ‘ ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئیں ‘ ان سے ملاقات کے لیے وہ بھی نجاشی کے ملک میں ہجرت کرنے والوں کے ساتھ ہجرت کر کے چلی گئی تھیں ۔ عمر رضی اللہ عنہ بھی حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر پہنچے ۔ اس وقت اسماءبنت عمیس رضی اللہ عنہا وہیں تھیں ۔ جب عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا تو دریافت فرمایا کہ یہ کون ہیں ؟ ام المومنین رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ اسماءبنت عمیس ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا اچھا وہی جو حبشہ سے بحری سفر کر کے آئی ہیں ۔ ۔ اسماءرضی اللہ عنہا نے کہا کہ جی ہاں ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ ہم تم لوگوں سے ہجرت میں آگے ہیں اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم تمہارے مقابلہ میں زیادہ قریب ہیں ۔ اسماءرضی اللہ عنہا اس پر بہت غصہ ہو گئیںاور کہا ہر گز نہیں ‘ خدا کی قسم ! تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ہو ‘ تم میں جو بھوکے ہوتے تھے اسے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کھانا کھلاتے تھے اور جونا واقف ہوتے اسے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نصیحت و موعظت کیا کرتے تھے ۔ لیکن ہم بہت دور حبشہ میں غیروں اور دشمنوں کے ملک میں رہتے تھے ‘ یہ سب کچھ ہم نے اللہ اور اس کے رسول کے راستے ہی میں تو کیا اور خدا کی قسم ! میں اس وقت تک نہ کھانا کھا ؤں گی نہ پانی پیوں گی جب تک تمہاری بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ کہہ لوں ۔ ہمیں اذیت دی جاتی تھی ‘ دھمکایا ڈرایا جاتا تھا ‘ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کروں گی اور آپ سے اس کے متعلق پوچھوں گی ۔ خدا کی قسم نہمیں جھوٹ بولوں گی ‘ نہ کج روی اختیار کروں گی اور نہ کسی ( خلاف واقعہ بات کا ) اضافہ کروں گی ۔