‌صحيح البخاري - حدیث 421

كِتَابُ الصَّلاَةِ بَابُ القِسْمَةِ، وَتَعْلِيقِ القِنْوِ فِي المَسْجِدِ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: «القِنْوُ العِذْقُ وَالِاثْنَانِ قِنْوَانِ وَالجَمَاعَةُ أَيْضًا قِنْوَانٌ مِثْلَ صِنْوٍ وَصِنْوَانٍ» صحيح وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ يَعْنِي ابْنَ طَهْمَانَ، عَنْ عَبْدِ العَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَالٍ مِنَ البَحْرَيْنِ، فَقَالَ: «انْثُرُوهُ فِي المَسْجِدِ» وَكَانَ أَكْثَرَ مَالٍ أُتِيَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ [ص:92] صلّى الله عليه وسلم، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الصَّلاَةِ وَلَمْ يَلْتَفِتْ إِلَيْهِ، فَلَمَّا قَضَى الصَّلاَةَ جَاءَ فَجَلَسَ إِلَيْهِ، فَمَا كَانَ يَرَى أَحَدًا إِلَّا أَعْطَاهُ، إِذْ جَاءَهُ العَبَّاسُ، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ: أَعْطِنِي، فَإِنِّي فَادَيْتُ نَفْسِي وَفَادَيْتُ عَقِيلًا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خُذْ» فَحَثَا فِي ثَوْبِهِ، ثُمَّ ذَهَبَ يُقِلُّهُ فَلَمْ يَسْتَطِعْ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اؤْمُرْ بَعْضَهُمْ يَرْفَعْهُ إِلَيَّ، قَالَ: «لاَ» قَالَ: فَارْفَعْهُ أَنْتَ عَلَيَّ، قَالَ: «لاَ» فَنَثَرَ مِنْهُ، ثُمَّ ذَهَبَ يُقِلُّهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اؤْمُرْ بَعْضَهُمْ يَرْفَعْهُ عَلَيَّ، قَالَ: «لاَ» قَالَ: فَارْفَعْهُ أَنْتَ عَلَيَّ، قَالَ: «لاَ» فَنَثَرَ مِنْهُ، ثُمَّ احْتَمَلَهُ، فَأَلْقَاهُ عَلَى كَاهِلِهِ، ثُمَّ انْطَلَقَ، فَمَا زَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُتْبِعُهُ بَصَرَهُ حَتَّى خَفِيَ عَلَيْنَا - عَجَبًا مِنْ حِرْصِهِ - فَمَا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَثَمَّ مِنْهَا دِرْهَمٌ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 421

کتاب: نماز کے احکام و مسائل باب: مسجد میں مال تقسیم کرنا ابراہیم بن طہمان نے کہا، عبدالعزیز بن صہیب سے، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بحرین سے رقم آئی۔ آپ نے فرمایا کہ اسے مسجد میں ڈال دو اور یہ رقم اس تمام رقم سے زیادہ تھی جو اب تک آپ کی خدمت میں آ چکی تھی۔ پھر آپ نماز کے لیے تشریف لائے اور اس کی طرف کوئی توجہ نہیں فرمائی، جب آپ نماز پوری کر چکے تو آ کر مال ( رقم ) کے پاس بیٹھ گئے اور اسے تقسیم کرنا شروع فرما دیا۔ اس وقت جسے بھی آپ دیکھتے اسے عطا فرما دیتے۔ اتنے میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور بولے کہ یا رسول اللہ رضی اللہ عنہ مجھے بھی عطا کیجیئے کیونکہ میں نے ( غزوہ بدر میں ) اپنا بھی فدیہ دیا تھا اور عقیل کا بھی ( اس لیے میں زیر بار ہوں ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لے لیجیئے۔ انھوں نے اپنے کپڑے میں روپیہ بھر لیا اور اسے اٹھانے کی کوشش کی لیکن ( وزن کی زیادتی کی وجہ سے ) وہ نہ اٹھا سکے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! کسی کو فرمائیے کہ وہ اٹھانے میں میری مدد کرے۔ آپ نے فرمایا نہیں ( یہ نہیں ہو سکتا ) انھوں نے کہا کہ پھر آپ ہی اٹھوا دیجیئے۔ آپ نے اس پر بھی انکار کیا، تب حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اس میں سے تھوڑا سا گرا دیا اور باقی کو اٹھانے کی کوشش کی، ( لیکن اب بھی نہ اٹھا سکے ) پھر فرمایا کہ یا رسول اللہ! کسی کو میری مدد کرنے کا حکم دیجیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار فرمایا تو انھوں نے کہا کہ پھر آپ ہی اٹھوا دیجیئے۔ لیکن آپ نے اس سے بھی انکار کیا، تب انھوں نے اس میں سے تھوڑا سا روپیہ گرا دیا اور اسے اٹھا کر اپنے کاندھے پر رکھ لیا اور چلنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی اس حرص پر اتنا تعجب ہوا کہ آپ اس وقت تک ان کی طرف دیکھتے رہے جب تک وہ ہماری نظروں سے غائب نہیں ہو گئے اور آپ بھی وہاں سے اس وقت تک نہ اٹھے جب تک کہ ایک چونی بھی باقی رہی۔
تشریح : حضرت امام بخاری قدس سرہ یہ ثابت فرمارہے ہیں کہ مسجد میں مختلف اموال کو تقسیم کے لیے لانا اورتقسیم کرنا درست ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین سے آیا ہوا روپیہ مسجد میں رکھوایا اورپھر اسے مسجدہی میں تقسیم فرمادیا۔ بعض دفعہ کھیتی باڑی کرنے والے صحابہ اصحاب صفہ کے لیے مسجد نبوی میں کھجور کا خوشہ لاکر لٹکادیا کرتے تھے۔ اسی کے لیے لفظ صنوان اور قنوان بولے گئے ہیں اوریہ دونوں الفاظ قرآن کریم میں بھی مستعمل ہیں۔ صنو کھجور کے ان درختوں کو کہتے ہیں جو دوتین مل کر ایک ہی جڑ سے نکلتے ہوں۔ ابراہیم بن طہمان کی روایت کو امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تعلیقاً نقل فرمایا ہے۔ ابونعیم نے مستخرج میں اورحاکم نے مستدرک میں اسے موصولاً روایت کیاہے۔ احمدبن حفص سے، انھوں نے اپنے باپ سے، انھوں نے ابراہیم بن طہمان سے، بحرین سے آنے والا خزانہ ایک لاکھ روپیہ تھا جسے حضرت علاءحضرمی رضی اللہ عنہ نے خدمت اقدس میں بھیجا تھا اوریہ پہلا خراج تھا جو مدینہ منورہ میں آپ کے پاس آیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا روپیہ مسلمانوں میں تقسیم فرمادیا اوراپنی ذات ( اقدس ) کے لیے ایک پیسہ بھی نہیں رکھا۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روپیہ اٹھانے کی اجازت تومرحمت فرمادی مگراس کے اٹھوانے میں نہ تو خود مدد دی نہ کسی دوسرے کومدد کے لیے اجازت دی، اس سے غرض یہ تھی کہ عباس رضی اللہ عنہ سمجھ جائیں اوردنیا کے مال کی حد سے زیادہ حرص نہ کریں۔ حضرت امام بخاری قدس سرہ یہ ثابت فرمارہے ہیں کہ مسجد میں مختلف اموال کو تقسیم کے لیے لانا اورتقسیم کرنا درست ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین سے آیا ہوا روپیہ مسجد میں رکھوایا اورپھر اسے مسجدہی میں تقسیم فرمادیا۔ بعض دفعہ کھیتی باڑی کرنے والے صحابہ اصحاب صفہ کے لیے مسجد نبوی میں کھجور کا خوشہ لاکر لٹکادیا کرتے تھے۔ اسی کے لیے لفظ صنوان اور قنوان بولے گئے ہیں اوریہ دونوں الفاظ قرآن کریم میں بھی مستعمل ہیں۔ صنو کھجور کے ان درختوں کو کہتے ہیں جو دوتین مل کر ایک ہی جڑ سے نکلتے ہوں۔ ابراہیم بن طہمان کی روایت کو امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تعلیقاً نقل فرمایا ہے۔ ابونعیم نے مستخرج میں اورحاکم نے مستدرک میں اسے موصولاً روایت کیاہے۔ احمدبن حفص سے، انھوں نے اپنے باپ سے، انھوں نے ابراہیم بن طہمان سے، بحرین سے آنے والا خزانہ ایک لاکھ روپیہ تھا جسے حضرت علاءحضرمی رضی اللہ عنہ نے خدمت اقدس میں بھیجا تھا اوریہ پہلا خراج تھا جو مدینہ منورہ میں آپ کے پاس آیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا روپیہ مسلمانوں میں تقسیم فرمادیا اوراپنی ذات ( اقدس ) کے لیے ایک پیسہ بھی نہیں رکھا۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روپیہ اٹھانے کی اجازت تومرحمت فرمادی مگراس کے اٹھوانے میں نہ تو خود مدد دی نہ کسی دوسرے کومدد کے لیے اجازت دی، اس سے غرض یہ تھی کہ عباس رضی اللہ عنہ سمجھ جائیں اوردنیا کے مال کی حد سے زیادہ حرص نہ کریں۔