كِتَابُ المَغَازِي بَابُ غَزْوَةِ خَيْبَرَ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَيْبَرَ فَسِرْنَا لَيْلًا فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ لِعَامِرٍ يَا عَامِرُ أَلَا تُسْمِعُنَا مِنْ هُنَيْهَاتِكَ وَكَانَ عَامِرٌ رَجُلًا شَاعِرًا فَنَزَلَ يَحْدُو بِالْقَوْمِ يَقُولُ اللَّهُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا فَاغْفِرْ فِدَاءً لَكَ مَا أَبْقَيْنَا وَثَبِّتْ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا وَأَلْقِيَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا إِنَّا إِذَا صِيحَ بِنَا أَبَيْنَا وَبِالصِّيَاحِ عَوَّلُوا عَلَيْنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ هَذَا السَّائِقُ قَالُوا عَامِرُ بْنُ الْأَكْوَعِ قَالَ يَرْحَمُهُ اللَّهُ قَالَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ وَجَبَتْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ لَوْلَا أَمْتَعْتَنَا بِهِ فَأَتَيْنَا خَيْبَرَ فَحَاصَرْنَاهُمْ حَتَّى أَصَابَتْنَا مَخْمَصَةٌ شَدِيدَةٌ ثُمَّ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى فَتَحَهَا عَلَيْهِمْ فَلَمَّا أَمْسَى النَّاسُ مَسَاءَ الْيَوْمِ الَّذِي فُتِحَتْ عَلَيْهِمْ أَوْقَدُوا نِيرَانًا كَثِيرَةً فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا هَذِهِ النِّيرَانُ عَلَى أَيِّ شَيْءٍ تُوقِدُونَ قَالُوا عَلَى لَحْمٍ قَالَ عَلَى أَيِّ لَحْمٍ قَالُوا لَحْمِ حُمُرِ الْإِنْسِيَّةِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهْرِيقُوهَا وَاكْسِرُوهَا فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوْ نُهَرِيقُهَا وَنَغْسِلُهَا قَالَ أَوْ ذَاكَ فَلَمَّا تَصَافَّ الْقَوْمُ كَانَ سَيْفُ عَامِرٍ قَصِيرًا فَتَنَاوَلَ بِهِ سَاقَ يَهُودِيٍّ لِيَضْرِبَهُ وَيَرْجِعُ ذُبَابُ سَيْفِهِ فَأَصَابَ عَيْنَ رُكْبَةِ عَامِرٍ فَمَاتَ مِنْهُ قَالَ فَلَمَّا قَفَلُوا قَالَ سَلَمَةُ رَآنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِي قَالَ مَا لَكَ قُلْتُ لَهُ فَدَاكَ أَبِي وَأُمِّي زَعَمُوا أَنَّ عَامِرًا حَبِطَ عَمَلُهُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَذَبَ مَنْ قَالَهُ إِنَّ لَهُ لَأَجْرَيْنِ وَجَمَعَ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ إِنَّهُ لَجَاهِدٌ مُجَاهِدٌ قَلَّ عَرَبِيٌّ مَشَى بِهَا مِثْلَهُ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَاتِمٌ قَالَ نَشَأَ بِهَا
کتاب: غزوات کے بیان میں
باب: غزوئہ خیبر کا بیان
ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ ان سے یزید بن ابی عبید نے اور ان سے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی طرف نکلے ۔ رات کے وقت ہمارا سفر جاری تھا کہ ایک صاحب ( اسید بن حضیر ) نے عامر سے کہا ‘ عامر ! اپنے کچھ شعر سناؤ ‘ عامر شاعر تھے ۔ اس فرمائش پر وہ سواری سے اتر کر حدی خوانی کر نے لگے ۔ کہا ” اے اللہ ! اگر تو نہ ہوتا تو ہمیں سیدھا راستہ نہ ملتا ‘ نہ ہم صددقہ کر سکتے اور نہ ہم نماز پڑھ سکتے ۔ پس ہماری جلدی مغفرت کر ، جب تک ہم زندہ ہیں ہماری جانیں تیرے راستے میں فدا ہیں اور اگر ہماری مڈ بھیڑ ہوجائے تو ہمیں ثابت رکھ ہم پر سکینت نازل فرما ، ہمیں جب ( باطل کی طرف ) بلایا جاتا ہے تو ہم انکار کر دیتے ہیں ، آج چلا چلا کر وہ ہمارے خلاف میدان میں آ ئے ہیں ۔ “ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کون شعرکہہ رہا ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ عامر بن اکوع ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ اللہ اس پر اپنی رحمت نازل فرمائے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عر ض کیا ، یا رسول اللہ ! آپ نے تو انہیں شہادت کا مستحق قرار دے دیا ‘ کاش ! ابھی اور ہمیں ان سے فائدہ اٹھانے دیتے ۔ پھر ہم خیبر آئے اور قلعہ کا محاصرہ کیا ‘ اس کے دوران ہمیں سخت تکالیف اور فاقوں سے گزر نا پڑا ۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح عطا فرمائی ‘ جس دن قلعہ فتح ہونا تھا ‘ اس کی رات جب ہوئی تو لشکر میں جگہ جگہ آگ جل رہی تھی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ آگ کیسی ہے ‘کس چیز کے لیے اسے جگہ جگہ جلا رکھا ہے ؟ صحا بہ رضی اللہ عنہم بولے کہ گوشت پکانے کے لیے ‘ آپ نے دریافت فرمایا کہ کس جانور کا گوشت ہے ؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے بتایا کہ پالتو گدھوں کا ‘ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام گوشت پھینک دو اور ہانڈیوں کو توڑ دو ۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ایسا نہ کرلیں کہ گوشت تو پھینک دیں اور ہانڈیوں کو دھولیں ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں ہی کرلو پھر ( دن میں جب صحابہ رضی اللہ عنہم نے جنگ کے لیے ) صف بندی کی تو چونکہ حضرت عامر رضی اللہ عنہ کی تلوار چھوٹی تھی ‘ اس لیے انہوں نے جب ایک یہودی کی پنڈلی پر ( جھک کر ) وار کرنا چاہا تو خود انہیں کی تلوار کی دھار سے انکے گھٹنے کا اوپر کا حصہ زخمی ہو گیا اور ان کی شہادت اسی میں ہو گئی ۔ بیان کیا کہ پھر جب لشکرواپس ہورہا تھا تو سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کا بیا ن ہے کہ مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا اور میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا ‘ کیا بات ہے ؟ میں نے عرض کیا ‘ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ‘ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عامر رضی اللہ عنہ کا سارا عمل اکارت ہوگیا ( کیونکہ خود اپنی ہی تلوار سے ان کی وفات ہوئی ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جھوٹا ہے وہ شخص جو اس طرح کی باتیں کرتا ہے ‘ انہیں تو دوہرا اجر ملے گا پھر آپ نے اپنی دونوں انگلیوں کو ایک ساتھ ملایا ‘ انہوں نے تکلیف اور مشقت بھی اٹھائی اور اللہ کے راستے میں جہاد بھی کیا ‘ شاید ہی کوئی عربی ہو ‘ جس نے ان جیسی مثال قائم کی ہو ۔ ہم سے قتیبہ نے بیان کیا ‘ ان سے حاتم نے ( بجائے مشی بھا کے ) نشا بھا نقل کیا یعنی کوئی عرب مدینہ میں عامر رضی اللہ عنہ جیسا نہیں ہوا ۔
تشریح :
حدیث میں جنگ خیبر کے کچھ مناظر بیان ہوئے ہیں یہی باب سے وجہ مطابقت ہے۔ عامر رضی اللہ عنہ شہید جن کا ذکر ہوا ہے رئیس خیبر مرحب نامی کے مقابلہ کے لیے نکلے تھے ۔ ان کی تلوار خود ان ہی کے ہاتھ ان کے گھٹنے میں لگی اور وہ شہید ہو گئے۔ بعض لوگوں کو ان کے متعلق خود کشی کا شبہ ہوا جس کی اصلاح کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عامر رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا اظہار ضروری ہوا۔
حدیث میں جنگ خیبر کے کچھ مناظر بیان ہوئے ہیں یہی باب سے وجہ مطابقت ہے۔ عامر رضی اللہ عنہ شہید جن کا ذکر ہوا ہے رئیس خیبر مرحب نامی کے مقابلہ کے لیے نکلے تھے ۔ ان کی تلوار خود ان ہی کے ہاتھ ان کے گھٹنے میں لگی اور وہ شہید ہو گئے۔ بعض لوگوں کو ان کے متعلق خود کشی کا شبہ ہوا جس کی اصلاح کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عامر رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا اظہار ضروری ہوا۔