كِتَابُ المَغَازِي بَابُ غَزْوَةِ ذِي قَرَدَ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا حَاتِمٌ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ قَالَ سَمِعْتُ سَلَمَةَ بْنَ الْأَكْوَعِ يَقُولُ خَرَجْتُ قَبْلَ أَنْ يُؤَذَّنَ بِالْأُولَى وَكَانَتْ لِقَاحُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرْعَى بِذِي قَرَدَ قَالَ فَلَقِيَنِي غُلَامٌ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ فَقَالَ أُخِذَتْ لِقَاحُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ مَنْ أَخَذَهَا قَالَ غَطَفَانُ قَالَ فَصَرَخْتُ ثَلَاثَ صَرَخَاتٍ يَا صَبَاحَاهْ قَالَ فَأَسْمَعْتُ مَا بَيْنَ لَابَتَيْ الْمَدِينَةِ ثُمَّ انْدَفَعْتُ عَلَى وَجْهِي حَتَّى أَدْرَكْتُهُمْ وَقَدْ أَخَذُوا يَسْتَقُونَ مِنْ الْمَاءِ فَجَعَلْتُ أَرْمِيهِمْ بِنَبْلِي وَكُنْتُ رَامِيًا وَأَقُولُ أَنَا ابْنُ الْأَكْوَعْ وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعْ وَأَرْتَجِزُ حَتَّى اسْتَنْقَذْتُ اللِّقَاحَ مِنْهُمْ وَاسْتَلَبْتُ مِنْهُمْ ثَلَاثِينَ بُرْدَةً قَالَ وَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ قَدْ حَمَيْتُ الْقَوْمَ الْمَاءَ وَهُمْ عِطَاشٌ فَابْعَثْ إِلَيْهِمْ السَّاعَةَ فَقَالَ يَا ابْنَ الْأَكْوَعِ مَلَكْتَ فَأَسْجِحْ قَالَ ثُمَّ رَجَعْنَا وَيُرْدِفُنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نَاقَتِهِ حَتَّى دَخَلْنَا الْمَدِينَةَ
کتاب: غزوات کے بیان میں
باب: ذات قرد کی لڑائی کا بیان
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ ان سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا ‘ کہا میں نے سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ وہ بیان کرتے تھے کہ میں فجر کی اذان سے پہلے ( مدینہ سے باہر غابہ کی طرف نکلا ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دودھ دینے والی اونٹنیاں ذات القرد میں چرا کرتی تھیں ۔ انہوں نے بیان کیا کہ راستے میں مجھے عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے غلام ملے اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیاں پکڑ لی گئیں ہیں ۔ میں پوچھا کہ کس نے پکڑا ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ قبیلہ غطفان والوں نے ۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں نے تین مرتبہ بڑی زور زور سے پکارا ‘ یا صباحاہ ! انہوں نے بیان کیا کہ اپنی آواز میں نے مدینہ کے دونوں کناروں تک پہنچا دی اور اس کے بعد میں سیدھا تیزی کے ساتھ دوڑتا ہوا آگے بڑھا اور آخر انہیں جالیا ۔ اس وقت وہ جانوروں کو پانی پلانے کے لیے اترے تھے ۔ میں نے ان پر تیر بر سانے شروع کردیئے ۔ میں تیر اندازی میں ماہر تھا اور یہ شعر کہتا جاتا تھا ” میں ابن الاکوع ہوں ‘ آج ذلیلوں کی بربادی کا دن ہے “ میں یہی رجز پڑھتا رہا اور آخر اونٹنیاں ان سے چھڑالیں بلکہ تیس چادریں ان کی میرے قبضے میں آگئیں ۔ سلمہ نے بیان کیا کہ اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر آگئے ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں نے تیر مار مار کر ان کو پانی نہیں دیا اور وہ ابھی پیاسے ہیں ۔ آپ فوراً ان کے تعاقب کے لیے فوج بھیج دیجئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابن الاکوع ! جب تو کسی پر قابو پا لے تو نرمی اختیار کر ۔ سلمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ‘ پھر ہم واپس آگئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنی اونٹی پر پیچھے بٹھا کر لائے یہا ں تک کہ ہم مدینہ واپس آگئے ۔
تشریح :
مسلمانوں کا یہ ڈاکوؤں سے مقابلہ تھا جو بیس عدد دودھ دینے والی اونٹنیاں اہل اسلام کی پکڑ کر لے جارہے تھے۔ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی بہادری نے اس میں مسلمانوں کو کامیابی بخشی اور جانور ڈاکوؤں سے حاصل کر لئے گئے۔ ایک روایت میں ان کو فزارہ کے لوگ بتلایا گیا ہے۔ یہ بھی غطفان قبیلے کی شاخ ہے۔ سلمہ رضی اللہ عنہ کا بیان ایک روایت یوں ہے کہ میں سلع پہاڑی پر چڑھ گیا اور میں نے ایسے موقع کا لفظ یا صباحاہ اس زور سے نکالا کہ پورے شہر مدینہ میں اس کی خبر ہو گئی۔ چار شنبہ کا دن تھا آواز پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پانچ سات سو آدمیوں سمیت نکل کر باہر آ گئے۔ اس موقع پر حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سو جوان میرے ساتھ کردیں تو جس قدر بھی ان کے پاس جانور ہیں سب کو چھین کر ان کو گرفتار کر کے لے آتا ہوں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر کیا زریں ارشاد فرمایا کہ ” دشمن قابو میں آجائے تب اس پر نرمی ہی کرنا مناسب ہے۔ “
مسلمانوں کا یہ ڈاکوؤں سے مقابلہ تھا جو بیس عدد دودھ دینے والی اونٹنیاں اہل اسلام کی پکڑ کر لے جارہے تھے۔ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی بہادری نے اس میں مسلمانوں کو کامیابی بخشی اور جانور ڈاکوؤں سے حاصل کر لئے گئے۔ ایک روایت میں ان کو فزارہ کے لوگ بتلایا گیا ہے۔ یہ بھی غطفان قبیلے کی شاخ ہے۔ سلمہ رضی اللہ عنہ کا بیان ایک روایت یوں ہے کہ میں سلع پہاڑی پر چڑھ گیا اور میں نے ایسے موقع کا لفظ یا صباحاہ اس زور سے نکالا کہ پورے شہر مدینہ میں اس کی خبر ہو گئی۔ چار شنبہ کا دن تھا آواز پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پانچ سات سو آدمیوں سمیت نکل کر باہر آ گئے۔ اس موقع پر حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سو جوان میرے ساتھ کردیں تو جس قدر بھی ان کے پاس جانور ہیں سب کو چھین کر ان کو گرفتار کر کے لے آتا ہوں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر کیا زریں ارشاد فرمایا کہ ” دشمن قابو میں آجائے تب اس پر نرمی ہی کرنا مناسب ہے۔ “