‌صحيح البخاري - حدیث 4193

كِتَابُ المَغَازِي بَابُ قِصَّةِ عُكْلٍ وَعُرَيْنَةَ صحيح حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ أَبُو عُمَرَ الْحَوْضِيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ وَالْحَجَّاجُ الصَّوَّافُ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو رَجَاءٍ مَوْلَى أَبِي قِلَابَةَ وَكَانَ مَعَهُ بِالشَّأْمِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ اسْتَشَارَ النَّاسَ يَوْمًا قَالَ مَا تَقُولُونَ فِي هَذِهِ الْقَسَامَةِ فَقَالُوا حَقٌّ قَضَى بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَضَتْ بِهَا الْخُلَفَاءُ قَبْلَكَ قَالَ وَأَبُو قِلَابَةَ خَلْفَ سَرِيرِهِ فَقَالَ عَنْبَسَةُ بْنُ سَعِيدٍ فَأَيْنَ حَدِيثُ أَنَسٍ فِي الْعُرَنِيِّينَ قَالَ أَبُو قِلَابَةَ إِيَّايَ حَدَّثَهُ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ عَنْ أَنَسٍ مِنْ عُرَيْنَةَ وَقَالَ أَبُو قِلَابَةَ عَنْ أَنَسٍ مِنْ عُكْلٍ ذَكَرَ الْقِصَّةَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4193

کتاب: غزوات کے بیان میں باب: قبائل عکل اور عرینہ کا قصہ مجھ سے محمد بن عبد الرحیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابو عمر حفص بن عمر الحوضی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ایوب اور حجاج صواف نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابو قلابہ کے مولیٰ ابو رجاءنے بیان کیا ‘ وہ ابو قلابہ کے ساتھ شام میں تھے کہ خلیفہ عمر بن عبد العزیز نے ایک دن لوگوں سے مشورہ کیا کہ اس ” قسامہ “ کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ یہ حق ہے ۔ اس کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر خلفاءراشدین آپ سے پہلے کر تے رہے ہیں ۔ ابو رجاءنے بیان کیا کہ اس وقت ابو قلابہ ‘ عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کے تخت کے پیچھے تھے ۔ اتنے میں عنبسہ بن سعید نے کہا کہ پھر قبیلہ عرینہ کے لوگوں کے بارے میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کہاں گئی ؟ اس پر ابو قلابہ نے کہا کہ انس رضی اللہ عنہ نے خود مجھ سے یہ بیان کیا ۔ عبد العزبن صہیب نے ( اپنی روایت میں ) انس رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے صرف عرینہ کا نام لیا اور ابو قلابہ نے اپنی روایت میں انس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے صرف عکل کا نام لیا پھر یہی قصہ بیان کیا ۔
تشریح : جب قتل کے گواہ نہ ہوں اور لاش کسی محلہ یا گاؤں میں ملے اوران لوگوں پر قتل کا شبہ ہو تو ان میں سے پچاس آدمی چن کر ان سے حلف لیا جاتا ہے اس کو قسامہ کہتے ہیں۔ عنبسہ کا خیال یہ تھا کہ آپ نے ان لوگوں کے لیے قسامہ کا حکم نہیں دیا تھا بلکہ ان سے قصاص لیا ۔ عنبسہ کا یہ اعتراض صحیح نہ تھا کیونکہ عرینہ والوں پر تو خون ثابت ہو چکا تھا اور قسامت وہاں ہوتی ہے جہاں ثبوت نہ ہو صرف اشتباہ ہو ۔ حدیث میں قبیلہ عرینہ کا ذکر ہے باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے ۔ روایت میں حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کا نام نامی ذکر ہو اہے جو خلیفہ عادل کے نام سے مشہور ہیں ۔ آپ کی امامت واجتہاد معرفت احادیث وآثار پر امت کا اتفاق ہے بلکہ آپ کو اپنے وقت کا مجدد اسلام تسلیم کیا گیا ہے ۔ آپ کے اسلامی کارناموں میں بڑا اہم ترین کارنامہ یہ ہے کہ آپ کو تدوین حدیث اور کتابت حدیث کی منظم کوشش کا احساس ہوا ۔ چنانچہ آپ نے اپنے نائب والی مدینہ ابوبکر حزمی کو فرمان بھیجا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث صحیحہ کو مدون کرو کیونکہ مجھے علم اور اہل علم کے ضائع ہوجانے کا اندیشہ ہے ۔ لہذا احادیث کی مستند کتابیں جمع کر کے مجھ کو بھیجو۔ ابوبکر حزمی نے آپ کے فرمان کی تعمیل میں احادیث کے کئی ذخیرے جمع کرائے مگر وہ ان کو حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کی حیات میں ان تک نہ پہنچا سکے۔ ہاں خلیفہ عادل نے حضرت ابن شہاب زہری کو بھی اس خدمت پر مامور فرمایا تھا اور ان کو جمع حدیث کا حکم دیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے دفتر کے دفتر جمع کئے اور ان کو خلیفہ وقت تک پہنچایا ۔ آپ نے ان کی متعدد نقلیں اپنی قکم رو میں مختلف مقامات پر بھجوائیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کو خلافت راشدہ کا خلیفہَ خامس قرار دیا گیا ہے رحمہ اللہ رحمۃً واسعۃً۔ جب قتل کے گواہ نہ ہوں اور لاش کسی محلہ یا گاؤں میں ملے اوران لوگوں پر قتل کا شبہ ہو تو ان میں سے پچاس آدمی چن کر ان سے حلف لیا جاتا ہے اس کو قسامہ کہتے ہیں۔ عنبسہ کا خیال یہ تھا کہ آپ نے ان لوگوں کے لیے قسامہ کا حکم نہیں دیا تھا بلکہ ان سے قصاص لیا ۔ عنبسہ کا یہ اعتراض صحیح نہ تھا کیونکہ عرینہ والوں پر تو خون ثابت ہو چکا تھا اور قسامت وہاں ہوتی ہے جہاں ثبوت نہ ہو صرف اشتباہ ہو ۔ حدیث میں قبیلہ عرینہ کا ذکر ہے باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے ۔ روایت میں حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کا نام نامی ذکر ہو اہے جو خلیفہ عادل کے نام سے مشہور ہیں ۔ آپ کی امامت واجتہاد معرفت احادیث وآثار پر امت کا اتفاق ہے بلکہ آپ کو اپنے وقت کا مجدد اسلام تسلیم کیا گیا ہے ۔ آپ کے اسلامی کارناموں میں بڑا اہم ترین کارنامہ یہ ہے کہ آپ کو تدوین حدیث اور کتابت حدیث کی منظم کوشش کا احساس ہوا ۔ چنانچہ آپ نے اپنے نائب والی مدینہ ابوبکر حزمی کو فرمان بھیجا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث صحیحہ کو مدون کرو کیونکہ مجھے علم اور اہل علم کے ضائع ہوجانے کا اندیشہ ہے ۔ لہذا احادیث کی مستند کتابیں جمع کر کے مجھ کو بھیجو۔ ابوبکر حزمی نے آپ کے فرمان کی تعمیل میں احادیث کے کئی ذخیرے جمع کرائے مگر وہ ان کو حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کی حیات میں ان تک نہ پہنچا سکے۔ ہاں خلیفہ عادل نے حضرت ابن شہاب زہری کو بھی اس خدمت پر مامور فرمایا تھا اور ان کو جمع حدیث کا حکم دیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے دفتر کے دفتر جمع کئے اور ان کو خلیفہ وقت تک پہنچایا ۔ آپ نے ان کی متعدد نقلیں اپنی قکم رو میں مختلف مقامات پر بھجوائیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کو خلافت راشدہ کا خلیفہَ خامس قرار دیا گیا ہے رحمہ اللہ رحمۃً واسعۃً۔