كِتَابُ المَغَازِي بَابُ غَزْوَةِ الحُدَيْبِيَةِ وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ المُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ} [الفتح: 18] صحيح حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَسِيرُ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَسِيرُ مَعَهُ لَيْلًا فَسَأَلَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَنْ شَيْءٍ فَلَمْ يُجِبْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ سَأَلَهُ فَلَمْ يُجِبْهُ ثُمَّ سَأَلَهُ فَلَمْ يُجِبْهُ وَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا عُمَرُ نَزَرْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ كُلُّ ذَلِكَ لَا يُجِيبُكَ قَالَ عُمَرُ فَحَرَّكْتُ بَعِيرِي ثُمَّ تَقَدَّمْتُ أَمَامَ الْمُسْلِمِينَ وَخَشِيتُ أَنْ يَنْزِلَ فِيَّ قُرْآنٌ فَمَا نَشِبْتُ أَنْ سَمِعْتُ صَارِخًا يَصْرُخُ بِي قَالَ فَقُلْتُ لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ يَكُونَ نَزَلَ فِيَّ قُرْآنٌ وَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَقَالَ لَقَدْ أُنْزِلَتْ عَلَيَّ اللَّيْلَةَ سُورَةٌ لَهِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ ثُمَّ قَرَأَ إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا
کتاب: غزوات کے بیان میں
باب: غزوئہ حدیبیہ کا بیان
مجھ سے عبد اللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو امام مالک نے خبردی ‘ انہیں زید بن اسلم نے اور انہیں ان کے والد اسلم نے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی سفر یعنی ( سفر حدیبیہ ) میں تھے ‘ رات کا وقت تھا اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ ساتھ تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ سے کچھ پوچھا لیکن ( اس وقت آپ وحی میں مشغول تھے ‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خبر نہ تھی ) آپ نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ انہوں نے پھر پوچھا ‘ آپ نے پھر کوئی جواب نہیں دیا ‘ انہوں نے پھر پوچھا ‘ آپ نے اس مرتبہ بھی کوئی جواب نہیں دیا ۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے ( اپنے دل میں ) کہا ‘ عمر ! تیری ماں تجھ پر روئے ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تم نے تین مرتبہ سوال کیا ‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں ایک مرتبہ بھی جواب نہیں دیا ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر میں نے اپنے اونٹ کو ایڑلگائی اور مسلمانوں سے آگے نکل گیا ۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں میرے بارے میں کوئی وحی نہ نازل ہوجائے ۔ ابھی تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ میں نے سنا ‘ ایک شخص مجھے آواز دے رہا تھا ۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے سوچا کہ میں تو پہلے ہی ڈر رہا تھا کہ میرے بارے میں کہیں کوئی وحی نازل نہ ہو جائے ‘ پھر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو سلام کیا ۔ آپ نے فرمایا کہ رات مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی ہے اور وہ مجھے اس تمام کائنات سے زیادہ عزیز ہے جس پر سورج طلوع ہوتا ہے‘ پھر آپ نے سورۃ انا فتحنا لک فتحا مبینا ( بے شک ہم نے آپ کو کھلی ہوئی فتح دی ہے ) کی تلاوت فرمائی ۔
تشریح :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ انا فتحنا کا نزول ہو رہا تھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ معلوم نہ ہوا اس لیے وہ با ر بار پوچھتے رہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے جس کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خفگی پر محمول کیا۔ بعد میں حقیقت حال کے کھلنے پر صحیح کیفیت معلوم ہوئی ۔ سورۃ انا فتحنا کا اس موقع پر نزول اشاعت اسلام کے لیے بشارت تھی اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورت کو ساری کائنات سے عزیز ترین بتلایا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ انا فتحنا کا نزول ہو رہا تھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ معلوم نہ ہوا اس لیے وہ با ر بار پوچھتے رہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے جس کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خفگی پر محمول کیا۔ بعد میں حقیقت حال کے کھلنے پر صحیح کیفیت معلوم ہوئی ۔ سورۃ انا فتحنا کا اس موقع پر نزول اشاعت اسلام کے لیے بشارت تھی اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورت کو ساری کائنات سے عزیز ترین بتلایا۔