كِتَابُ المَغَازِي بَاب حَدِيثِ الْإِفْكِ وَالْأَفَكِ بِمَنْزِلَةِ النِّجْسِ وَالنَّجَسِ يُقَالُ إِفْكُهُمْ وَأَفْكُهُمْ وَأَفَكُهُمْ فَمَنْ قَالَ أَفَكَهُمْ يَقُولُ صَرَفَهُمْ عَنْ الْإِيمَانِ وَكَذَّبَهُمْ كَمَا قَالَ يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ يُصْرَفُ عَنْهُ مَنْ صُرِفَ صحيح حَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِي الضُّحَى عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ دَخَلْنَا عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَعِنْدَهَا حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ يُنْشِدُهَا شِعْرًا يُشَبِّبُ بِأَبْيَاتٍ لَهُ وَقَالَ حَصَانٌ رَزَانٌ مَا تُزَنُّ بِرِيبَةٍ وَتُصْبِحُ غَرْثَى مِنْ لُحُومِ الْغَوَافِلِ فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ لَكِنَّكَ لَسْتَ كَذَلِكَ قَالَ مَسْرُوقٌ فَقُلْتُ لَهَا لِمَ تَأْذَنِينَ لَهُ أَنْ يَدْخُلَ عَلَيْكِ وَقَدْ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ فَقَالَتْ وَأَيُّ عَذَابٍ أَشَدُّ مِنْ الْعَمَى قَالَتْ لَهُ إِنَّهُ كَانَ يُنَافِحُ أَوْ يُهَاجِي عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
کتاب: غزوات کے بیان میں
باب: واقعہ افک کا بیان
مجھ سے بشر بن خالد نے بیان کیا ‘ ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی ‘ انہیں شعبہ نے ‘ انہیں سلیمان نے ‘ انہیں ابوالضحیٰ نے اور ان سے مسروق نے بیان کیا کہ ہم عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کے یہاں حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ موجود تھے اور ام المومنین رضی اللہ عنہا کو اپنا اشعار سنا رہے تھے ۔ ایک شعر تھا جس کا ترجمہ یہ ہے ۔ وہ سنجیدہ اور پاک دامن ہیںجس پر کبھی تہمت نہیں لگائی گئی ‘ وہ ہر صبح بھوکی ہو کر نادان بہنوں کا گوشت نہیں کھاتی ۔ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا لیکن تم تو ایسے نہیں ثابت ہوئے ۔ مسروق نے بیان کیا کہ پھر میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا ‘ آپ انہیں اپنے یہاں آنے کی اجازت کیوں دیتی ہیں ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ ان کے متعلق فرما چکا ہے ” اور ان میں وہ شخص جو تہمت لگانے میں سب سے زیادہ ذمہ دار ہے اس کے لیے بڑا عذاب ہوگا “ اس پر ام المومنین نے فرمایا کہ نا بینا ہوجانے سے سخت عذاب اور کیا ہوگا ( حسان رضی اللہ عنہ کی بصارت آخر عمر میں چلی گئی تھی ) عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا کہ حسان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کیا کرتے تھے ۔
تشریح :
یہ آیت عبداللہ بن ابی کے بارے میں نازل ہوئی تھی جیسا کہ معلوم ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حسان رضی اللہ عنہ کی شان میں کسی برے کلمہ کو گوارا نہیں کرتی تھیں۔ حسان رضی اللہ عنہ سے تہمت کی غلطی ضرور ہوئی تھی لیکن جن صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی اس میں غلطی سے شرکت کی تھی وہ سب تائب ہو گئے تھے اور ان کی توبہ قبول ہو گئی تھی ۔ اور بہر حال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا دل غلطی سے شریک ہونے والے صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف سے صاف ہو گیا تھا لیکن جب اس طرح کا ذکر آجا تا تو دل کارنجیدہ ہوجانا ایک قدرتی بات تھی۔ یہاں بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دو ایک چبھتے ہوئے جملے غالباً اسی اثر میں حضرت حسان رضی اللہ عنہ سے متعلق کہہ دیئے ہیں ۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں وفی ترجمۃ الزھری عن حلیۃ ابی نعیم من طریق بن عیینۃ عن الزہری کنت عند الولید بن عبد الملک فتلا ھذہ الایۃ والذی تولی کبرہ منھم لہ عذاب عظیم فقال نزلت فی علی بن ابی طالب قال الزہری اصلح اللہ الامیر لیس الامر کذالک اخبرنی عروہ عن عائشۃ قال وکیف اخبرک قلت اخبرنی عروۃ عن عائشۃ انھا نزلت فی عبداللہ بن ابی ابن سلول ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وکان بعض من لا خیر فیہ من الناصبۃ تقرب الی بنی امیۃ بھذہ الکذبۃ فحرفوا قول عائشۃ الی غیر وجہہ لعلمھم بانحرافھم عن علی فظنوا صحتھا حتی بین الزہری للولید ان الحق خلاف ذالک فجزاہ اللہ تعالی خیرا وقد جاءعن الزہری ان ہشام بن عبد الملک کان یعتقد ذالک ایضا فاخرج یعقوب بن شیبۃ فی مسندہ عن الحسن بن علی الحلوانی عن الشافعی قال حدثنا عمی قال دخل سلیمان بن یسار علی ہشام بن عبد الملک فقال لہ یا سلیمان الذی تولی کبرہ من ہو؟ قال عبداللہ بن ابی قال کذبت بل ہو علی قال امیر المومنین اعلم بما یقول فدخل الزہری فقال یا ابن شہاب منالذی تولی کبرہ قال ابن ابی قال کذبت ہو علی فقال انا کذب لا ابالک واللہ لو نادی مناد من السماءان اللہ احل الکذب ما کذبت قال الکرمانی واعلم ان براۃ عائشۃ قطعیۃ بنص القرآن ولو شک فیھا احد صار کافرا انتھی وزاد فی خیر الجاری وہو مذہب ٓ رحمہ اللہ الشیعۃ الامامیۃ مع بغضھم بھا انتھی ( فتح الباری )
( خلاصہ یہ ہے کہ آیت والذہ تولی کبرہ سے مراد عبد اللہ بن ابی ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ مراد نہیں ہیں )
یہ آیت عبداللہ بن ابی کے بارے میں نازل ہوئی تھی جیسا کہ معلوم ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حسان رضی اللہ عنہ کی شان میں کسی برے کلمہ کو گوارا نہیں کرتی تھیں۔ حسان رضی اللہ عنہ سے تہمت کی غلطی ضرور ہوئی تھی لیکن جن صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی اس میں غلطی سے شرکت کی تھی وہ سب تائب ہو گئے تھے اور ان کی توبہ قبول ہو گئی تھی ۔ اور بہر حال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا دل غلطی سے شریک ہونے والے صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف سے صاف ہو گیا تھا لیکن جب اس طرح کا ذکر آجا تا تو دل کارنجیدہ ہوجانا ایک قدرتی بات تھی۔ یہاں بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دو ایک چبھتے ہوئے جملے غالباً اسی اثر میں حضرت حسان رضی اللہ عنہ سے متعلق کہہ دیئے ہیں ۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں وفی ترجمۃ الزھری عن حلیۃ ابی نعیم من طریق بن عیینۃ عن الزہری کنت عند الولید بن عبد الملک فتلا ھذہ الایۃ والذی تولی کبرہ منھم لہ عذاب عظیم فقال نزلت فی علی بن ابی طالب قال الزہری اصلح اللہ الامیر لیس الامر کذالک اخبرنی عروہ عن عائشۃ قال وکیف اخبرک قلت اخبرنی عروۃ عن عائشۃ انھا نزلت فی عبداللہ بن ابی ابن سلول ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وکان بعض من لا خیر فیہ من الناصبۃ تقرب الی بنی امیۃ بھذہ الکذبۃ فحرفوا قول عائشۃ الی غیر وجہہ لعلمھم بانحرافھم عن علی فظنوا صحتھا حتی بین الزہری للولید ان الحق خلاف ذالک فجزاہ اللہ تعالی خیرا وقد جاءعن الزہری ان ہشام بن عبد الملک کان یعتقد ذالک ایضا فاخرج یعقوب بن شیبۃ فی مسندہ عن الحسن بن علی الحلوانی عن الشافعی قال حدثنا عمی قال دخل سلیمان بن یسار علی ہشام بن عبد الملک فقال لہ یا سلیمان الذی تولی کبرہ من ہو؟ قال عبداللہ بن ابی قال کذبت بل ہو علی قال امیر المومنین اعلم بما یقول فدخل الزہری فقال یا ابن شہاب منالذی تولی کبرہ قال ابن ابی قال کذبت ہو علی فقال انا کذب لا ابالک واللہ لو نادی مناد من السماءان اللہ احل الکذب ما کذبت قال الکرمانی واعلم ان براۃ عائشۃ قطعیۃ بنص القرآن ولو شک فیھا احد صار کافرا انتھی وزاد فی خیر الجاری وہو مذہب ٓ رحمہ اللہ الشیعۃ الامامیۃ مع بغضھم بھا انتھی ( فتح الباری )
( خلاصہ یہ ہے کہ آیت والذہ تولی کبرہ سے مراد عبد اللہ بن ابی ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ مراد نہیں ہیں )