‌صحيح البخاري - حدیث 4137

كِتَابُ المَغَازِي بَابُ غَزْوَةِ ذَاتِ الرِّقَاعِ صحيح وقال أبو الزبير عن جابر، كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم بنخل فصلى الخوف‏.‏ وقال أبو هريرة صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم غزوة نجد صلاة الخوف‏.‏ وإنما جاء أبو هريرة إلى النبي صلى الله عليه وسلم أيام خيبر‏.‏

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4137

کتاب: غزوات کے بیان میں باب: غزوہ ذات الرقاع کا بیان اور ابو الزبیر نے جابر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مقام نخل میں تھے تو آپ نے نماز خوف پڑھائی اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز خوف غزوہ نجد میں پڑھی تھی ۔ یہ یاد رہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ( سب سے پہلے ) غزوئہ خیبر کے موقع پر حاضر ہوئے تھے ۔
تشریح : اس حدیث کی شرح میںحضرت حافظ ابن حجر فرماتے ہیں وکذالک اخرجھا ابراہیم الحربی فی کتاب غریب الحدیث عن جابر قال غزا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم محارب خصفۃ بنخل فراوا من المسلمین غرۃ فجاءرجل منھم یقال لہ غورث بن الحارث حتی قام علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالسیف فذکرہ وفیہ فقال الا عرابی غیر انی اعاھدک ان لا اقاتلک ولا اکون مع قوم یقاتلونک فخلی سبیلہ فجآءالی اصحابہ فقال جئتکم من عند خیر الناس وقد ذکر الواقدی فی نحو ھذہ القصۃ انہ اسلم ورجع الی قومہ فاھتدی بہ خلق کثیر ( فتح الباری ) خلاصہ یہ کہ رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کھجور وں کے علاقہ میں خصفہ نامی قبیلے پر جہاد کیا اور واپسی میں مسلمان ایک جگہ دو پہر میں آرام لینے کے لیے متفرق ہو کر جگہ جگہ درختوں کے نیچے سو گئے ۔ اس وقت اس قبیلہ کا ایک آدمی غورث بن حارث نامی ننگی تلوار لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر ہانے کھڑا ہو گیا ۔ پس یہ سارا ماجرا ہوااور اس میں یہ بھی ہے بعد میں جب وہ دیہاتی نا کام ہو گیا تو اس نے کہا کہ میں آپ سے ترک جنگ کا معاہدہ کر تا ہوں اور اس بات کا بھی کہ میں آپ سے لڑنے والی قوم کا ساتھ نہیں دوں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا راستہ چھوڑدیا اور وہ اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور ان سے کہا میں کہ ایسے بزرگ شخص کے پاس سے آیا ہوں کہ جو بہترین قسم کا آدمی ہے ۔ واقدی نے ایسے ہی قصہ میں یہ بھی ذکر کیا ہے کہ بعد میں وہ شخص مسلمان ہو گیا اور اپنی قوم میں واپس آیا اور اس کے ذریعہ بہت سی مخلوق نے ہدایت حاصل کی۔ اس حدیث کی شرح میںحضرت حافظ ابن حجر فرماتے ہیں وکذالک اخرجھا ابراہیم الحربی فی کتاب غریب الحدیث عن جابر قال غزا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم محارب خصفۃ بنخل فراوا من المسلمین غرۃ فجاءرجل منھم یقال لہ غورث بن الحارث حتی قام علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالسیف فذکرہ وفیہ فقال الا عرابی غیر انی اعاھدک ان لا اقاتلک ولا اکون مع قوم یقاتلونک فخلی سبیلہ فجآءالی اصحابہ فقال جئتکم من عند خیر الناس وقد ذکر الواقدی فی نحو ھذہ القصۃ انہ اسلم ورجع الی قومہ فاھتدی بہ خلق کثیر ( فتح الباری ) خلاصہ یہ کہ رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کھجور وں کے علاقہ میں خصفہ نامی قبیلے پر جہاد کیا اور واپسی میں مسلمان ایک جگہ دو پہر میں آرام لینے کے لیے متفرق ہو کر جگہ جگہ درختوں کے نیچے سو گئے ۔ اس وقت اس قبیلہ کا ایک آدمی غورث بن حارث نامی ننگی تلوار لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر ہانے کھڑا ہو گیا ۔ پس یہ سارا ماجرا ہوااور اس میں یہ بھی ہے بعد میں جب وہ دیہاتی نا کام ہو گیا تو اس نے کہا کہ میں آپ سے ترک جنگ کا معاہدہ کر تا ہوں اور اس بات کا بھی کہ میں آپ سے لڑنے والی قوم کا ساتھ نہیں دوں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا راستہ چھوڑدیا اور وہ اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور ان سے کہا میں کہ ایسے بزرگ شخص کے پاس سے آیا ہوں کہ جو بہترین قسم کا آدمی ہے ۔ واقدی نے ایسے ہی قصہ میں یہ بھی ذکر کیا ہے کہ بعد میں وہ شخص مسلمان ہو گیا اور اپنی قوم میں واپس آیا اور اس کے ذریعہ بہت سی مخلوق نے ہدایت حاصل کی۔