كِتَابُ المَغَازِي بَابُ غَزْوَةِ ذَاتِ الرِّقَاعِ صحيح حدثنا إسماعيل، قال حدثني أخي، عن سليمان، عن محمد بن أبي عتيق، عن ابن شهاب، عن سنان بن أبي سنان الدؤلي، عن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ أخبره أنه، غزا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل نجد، فلما قفل رسول الله صلى الله عليه وسلم قفل معه، فأدركتهم القائلة في واد كثير العضاه، فنزل رسول الله صلى الله عليه وسلم، وتفرق الناس في العضاه يستظلون بالشجر، ونزل رسول الله صلى الله عليه وسلم تحت سمرة، فعلق بها سيفه، قال جابر فنمنا نومة، ثم إذا رسول الله صلى الله عليه وسلم يدعونا، فجئناه فإذا عنده أعرابي جالس فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن هذا اخترط سيفي، وأنا نائم فاستيقظت، وهو في يده صلتا، فقال لي من يمنعك مني قلت الله. فها هو ذا جالس . ثم لم يعاقبه رسول الله صلى الله عليه وسلم.
کتاب: غزوات کے بیان میں باب: غزوہ ذات الرقاع کا بیان ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید نے بیان کیا ‘ ان سے سلیمان بن بلال نے ‘ ان سے محمد بن ابی عتیق نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے سنان بن ابی سنان دولی نے ‘ انہیں جابر رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اطراف نجد میں غزوہ کے لیے گئے تھے ۔ پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہوئے تو وہ بھی واپس ہوئے ۔ قیلولہ کا وقت ایک وادی میں آیا ‘ جہاں ببول کے درخت بہت تھے ۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہیں اتر گئے اور صحابہ رضی اللہ عنہم درختوں کے سائے کے لیے پوری وادی میں پھیل گئے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک ببول کے درخت کے نیچے قیام فرمایا اور اپنی تلوار اس درخت پر لٹکا دی ۔ جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابھی تھوڑی دیر ہمیں سوئے ہوئے ہوئی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پکارا ۔ ہم جب خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ کے پاس ایک بدوی بیٹھا ہوا تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص نے میری تلوار ( مجھی پر ) کھینچ لی تھی ‘ میں اس وقت سویا ہوا تھا ‘ میری آنکھ کھلی تو میری ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں تھی ۔ اس نے مجھ سے کہا ‘ تمہیں میرے ہاتھ سے آج کون بچائے گا ؟ میں نے کہا کہ اللہ ! اب دیکھو یہ بیٹھاہوا ہے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھر کوئی سزا نہیں دی ۔ ( دوسری سند )