كِتَابُ المَغَازِي بَابُ مَرْجِعِ النَّبِيِّ ﷺ مِنَ الأَحْزَابِ، وَمَخْرَجِهِ إِلَى بَنِي قُرَيْظَةَ وَمُحَاصَرَتِهِ إِيَّاهُمْ صحيح حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الْأَسْوَدِ حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ح و حَدَّثَنِي خَلِيفَةُ حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ قَالَ سَمِعْتُ أَبِي عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ الرَّجُلُ يَجْعَلُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّخَلَاتِ حَتَّى افْتَتَحَ قُرَيْظَةَ وَالنَّضِيرَ وَإِنَّ أَهْلِي أَمَرُونِي أَنْ آتِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْأَلَهُ الَّذِي كَانُوا أَعْطَوْهُ أَوْ بَعْضَهُ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَعْطَاهُ أُمَّ أَيْمَنَ فَجَاءَتْ أُمُّ أَيْمَنَ فَجَعَلَتْ الثَّوْبَ فِي عُنُقِي تَقُولُ كَلَّا وَالَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَا يُعْطِيكَهُمْ وَقَدْ أَعْطَانِيهَا أَوْ كَمَا قَالَتْ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَكِ كَذَا وَتَقُولُ كَلَّا وَاللَّهِ حَتَّى أَعْطَاهَا حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ عَشَرَةَ أَمْثَالِهِ أَوْ كَمَا قَالَ
کتاب: غزوات کے بیان میں باب: غزوئہ احزاب سے نبی کریم کا واپس لوٹنا اور بنو قریظہ پر چڑھائی کرنااور ان کا محاصرہ کرنا ہم سے عبد اللہ ابی الا سود نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا ( دوسری سند امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ) اور مجھ سے خلیفہ بن خیاط نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے اپنے والد سے سنا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ بطور ہدیہ صحابہ رضی اللہ عنہم اپنے باغ میں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چند کھجور کے درخت مقرر کردیئے تھے یہاں تک کہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کے قبائل فتح ہو گئے ( تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہدایا کو واپس کر دیا ) میرے گھر والوں نے بھی مجھے اس کھجور کو ‘ تمام کی تمام یا اس کا کچھ حصہ لینے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کھجور ام ایمن رضی اللہ عنہا کو دے دی تھی ۔ اتنے میں وہ بھی آگئیں اور کپڑا میری گردن میں ڈال کر کہنے لگیں ‘ قطعاً نہیں ۔ اس ذات کی قسم ! جس کے سوا کوئی معبود نہیں یہ پھل تمہیں نہیں ملیں گے ۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھے عنایت فرماچکے ہیں ۔ یا اسی طرح کے الفاظ انہوں نے بیان کئے ۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تم مجھ سے اس کے بدلے میں اتنے لے لو ۔ ( اور ان کا مال انہیں واپس کردو ) لیکن وہ اب بھی یہی کہے جارہی تھیںکہ قطعاً نہیں ‘ خدا کی قسم ! یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ‘ میرا خیال ہے کہ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس کا دس گنا دینے کا وعدہ فرمایا ( پھر انہوں نے مجھے چھوڑا ) یا اسی طرح کے الفاظ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کئے ۔