كِتَابُ المَغَازِي بَابُ مَرْجِعِ النَّبِيِّ ﷺ مِنَ الأَحْزَابِ، وَمَخْرَجِهِ إِلَى بَنِي قُرَيْظَةَ وَمُحَاصَرَتِهِ إِيَّاهُمْ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ بْنُ أَسْمَاءَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْأَحْزَابِ لَا يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّا فِي بَنِي قُرَيْظَةَ فَأَدْرَكَ بَعْضُهُمْ الْعَصْرَ فِي الطَّرِيقِ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لَا نُصَلِّي حَتَّى نَأْتِيَهَا وَقَالَ بَعْضُهُمْ بَلْ نُصَلِّي لَمْ يُرِدْ مِنَّا ذَلِكَ فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُعَنِّفْ وَاحِدًا مِنْهُمْ
کتاب: غزوات کے بیان میں
باب: غزوئہ احزاب سے نبی کریم کا واپس لوٹنا اور بنو قریظہ پر چڑھائی کرنااور ان کا محاصرہ کرنا
ہم سے محمد بن عبد اللہ بن محمد بن اسماءنے بیان کیا ‘ کہا ہم سے جویریہ بن اسماءنے بیان کیا ‘ ان سے نافع نے اور ان سے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ غزوئہ احزاب ( سے فارغ ہوکر ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام مسلمان عصر کی نماز بنو قریظہ تک پہنچنے کے بعد ہی ادا کریں ۔ بعض حضرات کی عصر کی نماز کا وقت راستے ہی میں ہو گیا ۔ ان میں سے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم نے تو کہا کہ ہم راستے میں نماز نہیں پڑھیں گے ۔ ( کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ میں نماز عصر پڑھنے کے لیے فرمایا ہے ۔ ) اور بعض صحابہ نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا منشا یہ نہیں تھا ۔ بعد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کا تذکرہ ہوا تو آپ نے کسی پر خفگی نہیں فرمائی ۔
تشریح :
جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوئہ خندق سے کامیابی کے ساتھ واپس ہوئے تو ظہر کے وقت حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لا کر کہنے لگے کہ اللہ تعالی کا حکم آپ کے لیے یہ ہے کہ آپ فوراًبنو قریظہ کی طرف چلیں ۔ آپ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو پکارنے کے لیے حکم فرمایا کہ من کان سامعا مطیعا فلا یصلین العصر الا فی بنی قریظۃ یعنی جو بھی سننے والا فرمانبردارمسلمان ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ عصرکی نماز بنی قریظہ میں پہنچ کر پڑھے۔ وقال ابن القیم فی الھدی ما حصلہ کل من الفریقین ما جور بقصدہ الاان من صلی حاز الفضیلتین امتثال الامر فی الاسراع وامتثال الامر فی المحافظۃ علی الوقت ولا سیما ما فی ھذہ الصلاۃ بعینہا من الحث علی المحافظۃ علیہا وان من فاتہ حبط وانما لم یعنف الذین اخروھا لقیام عذرھم فی التمسک بظاہر الامر اجتھدوا فاخروا لامتثالھم الامر لکنھم لم یصلوا الی ان یکون اجتھادھم اصوب من اجتھادالطائفۃ الاخری الخ وقد استدل بہ الجمھور علی عدم تاثیم من اجتھد لانہ صلی اللہ علیہ وسلم لم یعنف احدا من الطائفتین فلو کا ن ھناک اثم لعنف من اثم ( فتح الباری ) خلاصہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کرایا کہ جو بھی مسلمان سننے والا اور فرمانبرداری کرنے والا ہے اس کا فرض ہے کہ نماز عصر بنوقریظہ ہی میں ادا کرے ۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں کہا ہے کہ دونوں فریق اجر وثواب کے حقدار ہوئے ۔ مگر جس نے وقت ہونے پر راستہ ہی میں نماز ادا کرلی اس نے دونوں فضیلتوں کو حاصل کر لیا ۔ پہلی فضیلت نماز عصر کی اس کے اول وقت میں ادا کرنے کی کیونکہ اس نماز کو اپنے وقت پر ادا کرنے کی خاص تاکید ہے اور یہاں تک ہے کہ جس کی نماز عصر فوت ہو گئی اس کا عمل ضائع ہو گیا ۔ اس طرح اس فریق کو اول وقت نماز پڑھنے اور پھر بنو قریظہ پہنچ جانے کا ثواب حاصل ہوا اور دوسرا فریق جس نے نمازعصر میں تاخیر کی اور ظاہر فرما ن رسول پر عمل کیا ان پر کوئی نکتہ چینی نہیں کی گئی کیو نکہ انہوں نے اپنے اجتہاد سے فرمان رسالت پر عمل کرنے کے لیے نماز کو تاخیر سے بنو قریظہ ہی میں جاکر ادا کیا ۔ ان کا اجتہاد پہلی جماعت سے زیادہ صواب کے قریب رہا۔ اسی سے جمہور نے استدلال کیا ہے کہ اجتہاد کرنے والا گنہگار نہیں ہے۔ ( اگر وہ اجتہاد میں غلطی بھی کر جائے ۔ ) اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں قسم کے لوگوں میں سے کسی پر بھی نکتہ چینی نہیں فرمائی ۔ اگر ان میں کوئی گنہگار قرار پاتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اس کو تنبیہ فرماتے۔ راقم الحروف کہتا ہے کہ اس بنا پر یہ اصول قرار پایا کہ المجتھد قد یخطی ویصیب مجتہد سے خطااور ثواب دونوں ہو سکتے ہیں اور خطا پر بھی گنہگار قرار نہیں دیا جا سکتا مگر جب اس کو قرآن و حدیث سے اپنے اجتہادی غلطی کی اطلاع ہو جائے تو اس پر اجتہاد کا ترک کرنا اور کتاب و سنت پر عمل کرنا واجب ہو جاتا ہے اسی لیے مجتہدین امت ائمہ اربعہ رحمہم اللہ نے واضح لفظوں میں وصیت کر دی ہے کہ ہمارے اجتہادی فتاوی اگر کتاب وسنت سے کسی جگہ ٹکرائیں تو کتاب وسنت کو مقدم رکھو اور ہمارے اجتہادی غلط فتاووں کو چھوڑ دو ۔ مگر افسوس ہے کہ ان کے پیرو کاروں نے ان کی اس قیمتی وصیت کو پس پشت ڈال کر ان کی تقلید پر ایسا جمود اختیار کیا کہ آج مذاہب اربعہ ایک الگ الگ دین الگ الگ امت نظر آتے ہیں ۔ اس لیے کہا گیا ہے کہ:
دین حق را چار مذہب سا ختند
آج جبکہ یہ چودھویں صدی ختم ہونے جارہی ہے مسلمانوں کا فرض ہے کہ ان فرضی گروہ بندیوں کو ختم کر کے کلمہ اور قرآن اور قبلہ پر اتحا د امت قائم کریں ورنہ حالات اس قدر نازک ہیں کہ اس افتراق وانشقاق کے نتیجہ بد میں مسلمان اور بھی زیادہ ہلاک وبرباد ہو جائیں گے ۔ وما علینا الا البلاغ المبین والحمد للہ رب العالمین۔
جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوئہ خندق سے کامیابی کے ساتھ واپس ہوئے تو ظہر کے وقت حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لا کر کہنے لگے کہ اللہ تعالی کا حکم آپ کے لیے یہ ہے کہ آپ فوراًبنو قریظہ کی طرف چلیں ۔ آپ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو پکارنے کے لیے حکم فرمایا کہ من کان سامعا مطیعا فلا یصلین العصر الا فی بنی قریظۃ یعنی جو بھی سننے والا فرمانبردارمسلمان ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ عصرکی نماز بنی قریظہ میں پہنچ کر پڑھے۔ وقال ابن القیم فی الھدی ما حصلہ کل من الفریقین ما جور بقصدہ الاان من صلی حاز الفضیلتین امتثال الامر فی الاسراع وامتثال الامر فی المحافظۃ علی الوقت ولا سیما ما فی ھذہ الصلاۃ بعینہا من الحث علی المحافظۃ علیہا وان من فاتہ حبط وانما لم یعنف الذین اخروھا لقیام عذرھم فی التمسک بظاہر الامر اجتھدوا فاخروا لامتثالھم الامر لکنھم لم یصلوا الی ان یکون اجتھادھم اصوب من اجتھادالطائفۃ الاخری الخ وقد استدل بہ الجمھور علی عدم تاثیم من اجتھد لانہ صلی اللہ علیہ وسلم لم یعنف احدا من الطائفتین فلو کا ن ھناک اثم لعنف من اثم ( فتح الباری ) خلاصہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کرایا کہ جو بھی مسلمان سننے والا اور فرمانبرداری کرنے والا ہے اس کا فرض ہے کہ نماز عصر بنوقریظہ ہی میں ادا کرے ۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں کہا ہے کہ دونوں فریق اجر وثواب کے حقدار ہوئے ۔ مگر جس نے وقت ہونے پر راستہ ہی میں نماز ادا کرلی اس نے دونوں فضیلتوں کو حاصل کر لیا ۔ پہلی فضیلت نماز عصر کی اس کے اول وقت میں ادا کرنے کی کیونکہ اس نماز کو اپنے وقت پر ادا کرنے کی خاص تاکید ہے اور یہاں تک ہے کہ جس کی نماز عصر فوت ہو گئی اس کا عمل ضائع ہو گیا ۔ اس طرح اس فریق کو اول وقت نماز پڑھنے اور پھر بنو قریظہ پہنچ جانے کا ثواب حاصل ہوا اور دوسرا فریق جس نے نمازعصر میں تاخیر کی اور ظاہر فرما ن رسول پر عمل کیا ان پر کوئی نکتہ چینی نہیں کی گئی کیو نکہ انہوں نے اپنے اجتہاد سے فرمان رسالت پر عمل کرنے کے لیے نماز کو تاخیر سے بنو قریظہ ہی میں جاکر ادا کیا ۔ ان کا اجتہاد پہلی جماعت سے زیادہ صواب کے قریب رہا۔ اسی سے جمہور نے استدلال کیا ہے کہ اجتہاد کرنے والا گنہگار نہیں ہے۔ ( اگر وہ اجتہاد میں غلطی بھی کر جائے ۔ ) اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں قسم کے لوگوں میں سے کسی پر بھی نکتہ چینی نہیں فرمائی ۔ اگر ان میں کوئی گنہگار قرار پاتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اس کو تنبیہ فرماتے۔ راقم الحروف کہتا ہے کہ اس بنا پر یہ اصول قرار پایا کہ المجتھد قد یخطی ویصیب مجتہد سے خطااور ثواب دونوں ہو سکتے ہیں اور خطا پر بھی گنہگار قرار نہیں دیا جا سکتا مگر جب اس کو قرآن و حدیث سے اپنے اجتہادی غلطی کی اطلاع ہو جائے تو اس پر اجتہاد کا ترک کرنا اور کتاب و سنت پر عمل کرنا واجب ہو جاتا ہے اسی لیے مجتہدین امت ائمہ اربعہ رحمہم اللہ نے واضح لفظوں میں وصیت کر دی ہے کہ ہمارے اجتہادی فتاوی اگر کتاب وسنت سے کسی جگہ ٹکرائیں تو کتاب وسنت کو مقدم رکھو اور ہمارے اجتہادی غلط فتاووں کو چھوڑ دو ۔ مگر افسوس ہے کہ ان کے پیرو کاروں نے ان کی اس قیمتی وصیت کو پس پشت ڈال کر ان کی تقلید پر ایسا جمود اختیار کیا کہ آج مذاہب اربعہ ایک الگ الگ دین الگ الگ امت نظر آتے ہیں ۔ اس لیے کہا گیا ہے کہ:
دین حق را چار مذہب سا ختند
آج جبکہ یہ چودھویں صدی ختم ہونے جارہی ہے مسلمانوں کا فرض ہے کہ ان فرضی گروہ بندیوں کو ختم کر کے کلمہ اور قرآن اور قبلہ پر اتحا د امت قائم کریں ورنہ حالات اس قدر نازک ہیں کہ اس افتراق وانشقاق کے نتیجہ بد میں مسلمان اور بھی زیادہ ہلاک وبرباد ہو جائیں گے ۔ وما علینا الا البلاغ المبین والحمد للہ رب العالمین۔