كِتَابُ المَغَازِي بَابُ غَزْوَةِ الخَنْدَقِ وَهِيَ الأَحْزَابُ صحيح حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا هِشَامٌ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ وَأَخْبَرَنِي ابْنُ طَاوُسٍ عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ وَنَسْوَاتُهَا تَنْطُفُ قُلْتُ قَدْ كَانَ مِنْ أَمْرِ النَّاسِ مَا تَرَيْنَ فَلَمْ يُجْعَلْ لِي مِنْ الْأَمْرِ شَيْءٌ فَقَالَتْ الْحَقْ فَإِنَّهُمْ يَنْتَظِرُونَكَ وَأَخْشَى أَنْ يَكُونَ فِي احْتِبَاسِكَ عَنْهُمْ فُرْقَةٌ فَلَمْ تَدَعْهُ حَتَّى ذَهَبَ فَلَمَّا تَفَرَّقَ النَّاسُ خَطَبَ مُعَاوِيَةُ قَالَ مَنْ كَانَ يُرِيدُ أَنْ يَتَكَلَّمَ فِي هَذَا الْأَمْرِ فَلْيُطْلِعْ لَنَا قَرْنَهُ فَلَنَحْنُ أَحَقُّ بِهِ مِنْهُ وَمِنْ أَبِيهِ قَالَ حَبِيبُ بْنُ مَسْلَمَةَ فَهَلَّا أَجَبْتَهُ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ فَحَلَلْتُ حُبْوَتِي وَهَمَمْتُ أَنْ أَقُولَ أَحَقُّ بِهَذَا الْأَمْرِ مِنْكَ مَنْ قَاتَلَكَ وَأَبَاكَ عَلَى الْإِسْلَامِ فَخَشِيتُ أَنْ أَقُولَ كَلِمَةً تُفَرِّقُ بَيْنَ الْجَمْعِ وَتَسْفِكُ الدَّمَ وَيُحْمَلُ عَنِّي غَيْرُ ذَلِكَ فَذَكَرْتُ مَا أَعَدَّ اللَّهُ فِي الْجِنَانِ قَالَ حَبِيبٌ حُفِظْتَ وَعُصِمْتَ قَالَ مَحْمُودٌ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ وَنَوْسَاتُهَا
کتاب: غزوات کے بیان میں
باب: غزوئہ خندق کا بیان جس کا دوسرا نام غزوئہ احزاب ہے ۔ موسیٰ بن عقبہ نے کہا کہ غزوئہ خندق شوال 4 ھ میں ہوا تھا۔
مجھ سے ابرا ہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو ہشام نے خبر دی ‘ انہیں معمر بن راشد نے ‘ انہیں زہری نے ‘ انہیں سالم بن عبد اللہ نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا اور معمر بن راشد نے بیان کیا کہ مجھے عبد اللہ بن طاؤس نے خبر دی ‘ ان سے عکرمہ بن خالد نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں حفصہ رضی اللہ عنہا کے یہاں گیا تو ان کے سر کے بالوں سے پانی کے قطرات ٹپک رہے تھے ۔ میں نے ان سے کہا کہ تم دیکھتی ہو لوگوں نے کیا کیا اور مجھے تو کچھ بھی حکومت نہیں ملی ۔ حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مسلمانوں کے مجمع میں جاؤ ‘ لوگ تمہارا انتظار کررہے ہیں ۔ کہیں ایسا نہ کہ تمہارا موقع پر نہپہنچنا مزید پھوٹ کا سبب بن جائے ۔ آخر حفصہ رضی اللہ عنہا کے اصرار پر عبد اللہ رضی اللہ عنہ گئے ۔ پھر جب لوگ وہاں سے چلے گئے تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور کہا کہ خلافت کے مسئلہ پر جسے گفتگو کرنی ہو وہ ذرا اپنا سر تو اٹھائے ۔ یقینا ہم اس سے ( اشارہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی طرف تھا ) زیادہ خلافت کے حقدار ہیں اور اس کے باپ سے بھی زیادہ ۔ حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اس پر کہا کہ آپ نے وہیں اس کا جواب کیوں نہیں دیا ؟ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے اسی وقت اپنے لنگی کھولی ( جواب دینے کو تیار ہوا ) اور ارادہ کرچکا تھا کہ ان سے کہوں کہ تم سے زیادہ خلافت کا حقدار وہ ہے جس نے تم سے اور تمہارے باپ سے اسلام کے لیے جنگ کی تھی ۔ لیکن پھر میں ڈرا کہ کہیں میری اس بات سے مسلمانوں میں اختلاف بڑھ نہ جائے اور خونریزی نہ ہو جائے اور میری بات کا مطلب میری منشا کے خلاف نہ لیا جانے لگے ۔ اس کے بجائے مجھے جنت کی وہ نعمتیں یاد آگئیں جو اللہ تعالیٰ نے ( صبر کر نے والوں کے لیے ) جنتوں میں تیار کر رکھی ہیں ۔ حبیب ابن ابی مسلم نے کہا کہ اچھاہوا آپ محفوظ رہے اور بچا لئے گئے ‘آفت میں نہیں پڑے ۔ محمود نے عبد الرزاق سے ( نسواتھا کے بجائے لفظ ) ونوساتھا بیان کیا ( جس کے معنی چوٹی کے ہیں جو عورتیں سر پر بال گوندھتے وقت نکالتی ہیں )
تشریح :
حافظ صاحب فر ماتے ہیں مرادہ بذالک ما وقع بین علی ومعاویۃ من القتال فی صفین یوم اجتماع الناس علی الحکومۃ بینھم فیما اختلفوا فیہ فراسلوا بقایا الصحابۃ من الحرمین وغیرھما وتواعدوا علی الاجتماع ینظروا فی ذالک فشاور ابن عمر اختہ فی التوجہ الیھم او عدمہ فاشارت علیہ با للحاق بھم خشیۃ ان یشا من غیبتہ اختلاف الی استمرار الفتنۃ فلم تفرق الناس ای بعد ان انتخب الحکمان وہی ابو موسی اشعری وکان من قبل علی و عمرو بن عاص وکان من قبل معاویۃ ( فتح )
یعنی مراد وہ حکومت کا جھگڑا ہے جو صفین کے مقام پر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان واقع ہوا۔ اس کے لیے حرمین کے بقایا صحابہ رضی اللہ عنہم نے باہمی مراسلت کرکے اس قضیہ نا مرضیہ کو ختم کرنے میں کوشش کرنے کے لیے ایک مجلس شوری کو بلایا جس میں شرکت کے لیے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے بہن سے مشورہ کیا۔ بہن کا مشورہ یہی ہوا کہ تم کو بھی اس مجلس میں ضرور شریک ہونا چاہیے ورنہ خطرہ ہے کہ تمہاری طرف سے لوگوں میں خواہ مخواہ بد گمانیاں پیدا ہو جائیں گی جن کا نتیجہ موجودہ فتنے کے ہمیشہ جاری رہنے کی صورت میں ظاہر ہو تو یہ اچھا نہ ہوگا۔ جب مجلس شوری ختم ہوئی تو معاملہ دونوں طرف سے ایک ایک پنچ کے انتخاب پر ختم ہوا۔ چنانچہ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے اور حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ حضرت معاویہ رضی اللہ کی طرف سے پنچ قرار پائے۔ بعد میں وہ ہوا جو مشہور ومعروف ہے۔
حافظ صاحب فر ماتے ہیں مرادہ بذالک ما وقع بین علی ومعاویۃ من القتال فی صفین یوم اجتماع الناس علی الحکومۃ بینھم فیما اختلفوا فیہ فراسلوا بقایا الصحابۃ من الحرمین وغیرھما وتواعدوا علی الاجتماع ینظروا فی ذالک فشاور ابن عمر اختہ فی التوجہ الیھم او عدمہ فاشارت علیہ با للحاق بھم خشیۃ ان یشا من غیبتہ اختلاف الی استمرار الفتنۃ فلم تفرق الناس ای بعد ان انتخب الحکمان وہی ابو موسی اشعری وکان من قبل علی و عمرو بن عاص وکان من قبل معاویۃ ( فتح )
یعنی مراد وہ حکومت کا جھگڑا ہے جو صفین کے مقام پر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان واقع ہوا۔ اس کے لیے حرمین کے بقایا صحابہ رضی اللہ عنہم نے باہمی مراسلت کرکے اس قضیہ نا مرضیہ کو ختم کرنے میں کوشش کرنے کے لیے ایک مجلس شوری کو بلایا جس میں شرکت کے لیے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے بہن سے مشورہ کیا۔ بہن کا مشورہ یہی ہوا کہ تم کو بھی اس مجلس میں ضرور شریک ہونا چاہیے ورنہ خطرہ ہے کہ تمہاری طرف سے لوگوں میں خواہ مخواہ بد گمانیاں پیدا ہو جائیں گی جن کا نتیجہ موجودہ فتنے کے ہمیشہ جاری رہنے کی صورت میں ظاہر ہو تو یہ اچھا نہ ہوگا۔ جب مجلس شوری ختم ہوئی تو معاملہ دونوں طرف سے ایک ایک پنچ کے انتخاب پر ختم ہوا۔ چنانچہ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے اور حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ حضرت معاویہ رضی اللہ کی طرف سے پنچ قرار پائے۔ بعد میں وہ ہوا جو مشہور ومعروف ہے۔