‌صحيح البخاري - حدیث 4091

كِتَابُ المَغَازِي بَابُ غَزْوَةِ الرَّجِيعِ صحيح حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ قَالَ حَدَّثَنِي أَنَسٌ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ خَالَهُ أَخٌ لِأُمِّ سُلَيْمٍ فِي سَبْعِينَ رَاكِبًا وَكَانَ رَئِيسَ الْمُشْرِكِينَ عَامِرُ بْنُ الطُّفَيْلِ خَيَّرَ بَيْنَ ثَلَاثِ خِصَالٍ فَقَالَ يَكُونُ لَكَ أَهْلُ السَّهْلِ وَلِي أَهْلُ الْمَدَرِ أَوْ أَكُونُ خَلِيفَتَكَ أَوْ أَغْزُوكَ بِأَهْلِ غَطَفَانَ بِأَلْفٍ وَأَلْفٍ فَطُعِنَ عَامِرٌ فِي بَيْتِ أُمِّ فُلَانٍ فَقَالَ غُدَّةٌ كَغُدَّةِ الْبَكْرِ فِي بَيْتِ امْرَأَةٍ مِنْ آلِ فُلَانٍ ائْتُونِي بِفَرَسِي فَمَاتَ عَلَى ظَهْرِ فَرَسِهِ فَانْطَلَقَ حَرَامٌ أَخُو أُمِّ سُلَيْمٍ وَهُوَ رَجُلٌ أَعْرَجُ وَرَجُلٌ مِنْ بَنِي فُلَانٍ قَالَ كُونَا قَرِيبًا حَتَّى آتِيَهُمْ فَإِنْ آمَنُونِي كُنْتُمْ وَإِنْ قَتَلُونِي أَتَيْتُمْ أَصْحَابَكُمْ فَقَالَ أَتُؤْمِنُونِي أُبَلِّغْ رِسَالَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ يُحَدِّثُهُمْ وَأَوْمَئُوا إِلَى رَجُلٍ فَأَتَاهُ مِنْ خَلْفِهِ فَطَعَنَهُ قَالَ هَمَّامٌ أَحْسِبُهُ حَتَّى أَنْفَذَهُ بِالرُّمْحِ قَالَ اللَّهُ أَكْبَرُ فُزْتُ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ فَلُحِقَ الرَّجُلُ فَقُتِلُوا كُلُّهُمْ غَيْرَ الْأَعْرَجِ كَانَ فِي رَأْسِ جَبَلٍ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْنَا ثُمَّ كَانَ مِنْ الْمَنْسُوخِ إِنَّا قَدْ لَقِينَا رَبَّنَا فَرَضِيَ عَنَّا وَأَرْضَانَا فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ ثَلَاثِينَ صَبَاحًا عَلَى رِعْلٍ وَذَكْوَانَ وَبَنِي لَحْيَانَ وَعُصَيَّةَ الَّذِينَ عَصَوْا اللَّهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4091

کتاب: غزوات کے بیان میں باب: غزوہ رجیع کا بیان ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا ٰ ، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ماموں ، ام سلیم ( انس کی والدہ ) کے بھائی کو بھی ان ستر سواروں کے ساتھ بھیجا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہوئی تھی کہ مشرکوں کے سردار عامر بن طفیل نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ( شرارت اور تکبر کی راہ سے ) تین صورتیں رکھی تھیں۔ اس نے کہا کہ یا تو یہ کیجئے کہ دیہاتی آبادی پر آپ کی حکومت ہو اور شہری آبادی پر میری ہو یا پھر مجھے آپ کا جانشیں مقرر کیا جائے ورنہ پھر میں ہرازوں غطفانیوں کو لے کر آپ پر چڑھائی کردوںگا۔ ( اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے بد دعا کی ) اور ام فلاں کے گھر میں وہ مرض طاعون میں گرفتار ہوا۔ کہنے لگا کہ اس فلاں کی عورت کے گھر کے جوان اونٹ کی طرح مجھے بھی غدود نکل آیا ہے۔ میرا گھوڑا لاؤ۔ چنانچہ وہ اپنے گھوڑے کی پشت پر ہی مرگیا۔ بہر حال ام سلیم کے بھائی حرام بن ملحان ایک اور صحابی جو لنگڑے تھے اور تیسرے صحابی جن کا تعلق بنی فلاں سے تھا ، آگے بڑھے۔ حرام نے ( اپنے دونوں ساتھیوں سے بنو عامر تک پہنچ کر پہلے ہی ) کہہ دیا کہ تم دونوں میرے قریب ہی کہیں رہنا۔ میں ان کے پاس پہلے جاتا ہوں اگر انہوں نے مجھے امن دے دیا تو تم لوگ قریب ہی ہو اور اگر انہوں نے قتل کردیاتوآپ حضرات اپنے ساتھیوں کے پاس چلے جائیں۔ چنانچہ قبیلہ میں پہنچ کر انہوں نے ان سے کہا ، کیا تم مجھے امان دیتے ہو کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام تمہیں پہنچادوں ؟ پھر وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام انہیں پہنچانے لگے تو قبیلہ والوں نے ایک شخص کو اشارہ کیا اور اس نے پیچھے سے آکر ان پر تیشہ سے وار کیا۔ ہمام نے بیان کیا ، میرا خیال ہے کہ نیزہ آر پار ہوگیا تھا۔ حرام کی زبان سے اس وقت نکلا ” اللہ اکبر ، کعبہ کے رب کی قسم ! میں نے تو اپنی مراد حاصل کرلی۔ “ اس کے بعد ان میں سے ایک صحابی کو بھی مشرکین نے پکڑ لیا ( جو حرام رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور انہیں بھی شہید کردیا ) پھر اس مہم کے تمام صحابہ کو شہید کردیا۔ صرف لنگڑے صحابی بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے وہ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے تھے۔ ان شہداءکی شان میں اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی ، بعد میں وہ آیت منسوخ ہوگئی ( آیت یہ تھی ) انا قد لقینا ربنا فرضی عنا وارضاناآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قبائل رعل ، ذکوان ، بنو لحیان اور عصیہ کے لیے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تھی تیس دن تک صبح کی نماز میں بد دعا کی۔
تشریح : ان قبائل کا جرم اتنا سنگین تھا کہ ان کے لیے بد دعا کرنا ضروری تھا۔ اللہ تعالی نے اپنے رسول کی بد دعا قبول کی اور یہ قبائل تباہ ہو گئے۔ الاما شاءاللہ۔ ان قبائل کا جرم اتنا سنگین تھا کہ ان کے لیے بد دعا کرنا ضروری تھا۔ اللہ تعالی نے اپنے رسول کی بد دعا قبول کی اور یہ قبائل تباہ ہو گئے۔ الاما شاءاللہ۔