‌صحيح البخاري - حدیث 4088

كِتَابُ المَغَازِي بَابُ غَزْوَةِ الرَّجِيعِ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعِينَ رَجُلًا لِحَاجَةٍ يُقَالُ لَهُمْ الْقُرَّاءُ فَعَرَضَ لَهُمْ حَيَّانِ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ رِعْلٌ وَذَكْوَانُ عِنْدَ بِئْرٍ يُقَالُ لَهَا بِئْرُ مَعُونَةَ فَقَالَ الْقَوْمُ وَاللَّهِ مَا إِيَّاكُمْ أَرَدْنَا إِنَّمَا نَحْنُ مُجْتَازُونَ فِي حَاجَةٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَتَلُوهُمْ فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ شَهْرًا فِي صَلَاةِ الْغَدَاةِ وَذَلِكَ بَدْءُ الْقُنُوتِ وَمَا كُنَّا نَقْنُتُ قَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ وَسَأَلَ رَجُلٌ أَنَسًا عَنْ الْقُنُوتِ أَبَعْدَ الرُّكُوعِ أَوْ عِنْدَ فَرَاغٍ مِنْ الْقِرَاءَةِ قَالَ لَا بَلْ عِنْدَ فَرَاغٍ مِنْ الْقِرَاءَةِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4088

کتاب: غزوات کے بیان میں باب: غزوہ رجیع کا بیان ہم سے ابو معمر نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبد الوارث بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا ، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ستر صحابہ کی ایک جماعت تبلیغ اسلام کے لیے بھیجی تھی۔ انہیں قاری کہا جاتا تھا۔ راستے میں بنو سلیم کے دو قبیلے رعل اور ذکوان نے ایک کنویں کے قریب ان کے ساتھ مزاحمت کی۔ یہ کنواں ” بئرمعونہ “ کے نام سے مشہور تھا۔ صحابہ نے ان سے کہا کہ خدا کی قسم ! ہم تمہارے خلاف ، یہاں لڑنے نہیں آئے ہیں بلکہ ہمیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک ضرورت پر مامور کیا گیا ہے۔ لیکن کفار کے ان قبیلوں نے تمام صحابہ کو شہید کر دیا۔ اس واقعہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز میں ان کے لیے ایک مہینہ تک بد دعا کرتے رہے۔ اسی دن سے دعاءقنوت کی ابتداہوئی ، ورنہ اس سے پہلے ہم دعا قنوت نہیں پڑھا کرتے تھے اور عبد العزیز بن صہیب نے بیان کیا کہ ایک صاحب ( عا صم احول ) نے انس رضی اللہ عنہ سے دعا قنوت کے بارے میں پوچھا کہ یہ دعا رکوع کے بعد پڑھی جائے گی یا قراءت قرآن سے فارغ ہونے کے بعد ؟ ( رکوع سے پہلے ) انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ قراءت قرآن سے فارغ ہونے کے بعد۔ ( رکوع سے پہلے )
تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ستر قاریوں کو اس لیے بھیجا تھا کہ قبائل رعل اور ذکوان اور عصیہ اور بنو لحیان کے لوگو ں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہا تھا کہ ہم مسلمان ہو گئے ہیں ہماری مدد کے لیے کچھ مسلمان بھیجئے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ ابو براءعامر بن مالک نامی ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ چند مسلمانوں کو نجد کی طرف بھیج دیں تو مجھے امید ہے کہ نجد والے مسلمان ہوجائیں گے ۔ آپ نے فرمایا میں ڈرتا ہوں نجد والے ان کو ہلاک نہ کر دیں ۔ وہ شخص کہنے لگامیں ان لوگو ں کو اپنی پناہ میں رکھوںگا ۔ اس وقت آپ نے یہ ستر صحابی روانہ کئے۔ صرف ایک صحابی کعب بن زید رضی اللہ عنہ زخمی ہو کر بچ نکلے تھے۔ جنہوں نے مدینہ آکر خبر دی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ستر قاریوں کو اس لیے بھیجا تھا کہ قبائل رعل اور ذکوان اور عصیہ اور بنو لحیان کے لوگو ں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہا تھا کہ ہم مسلمان ہو گئے ہیں ہماری مدد کے لیے کچھ مسلمان بھیجئے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ ابو براءعامر بن مالک نامی ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ چند مسلمانوں کو نجد کی طرف بھیج دیں تو مجھے امید ہے کہ نجد والے مسلمان ہوجائیں گے ۔ آپ نے فرمایا میں ڈرتا ہوں نجد والے ان کو ہلاک نہ کر دیں ۔ وہ شخص کہنے لگامیں ان لوگو ں کو اپنی پناہ میں رکھوںگا ۔ اس وقت آپ نے یہ ستر صحابی روانہ کئے۔ صرف ایک صحابی کعب بن زید رضی اللہ عنہ زخمی ہو کر بچ نکلے تھے۔ جنہوں نے مدینہ آکر خبر دی تھی۔