‌صحيح البخاري - حدیث 4077

كِتَابُ المَغَازِي بَابُ {الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ} [آل عمران: 172] صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُمْ الْقَرْحُ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ قَالَتْ لِعُرْوَةَ يَا ابْنَ أُخْتِي كَانَ أَبَوَاكَ مِنْهُمْ الزُّبَيْرُ وَأَبُو بَكْرٍ لَمَّا أَصَابَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَصَابَ يَوْمَ أُحُدٍ وَانْصَرَفَ عَنْهُ الْمُشْرِكُونَ خَافَ أَنْ يَرْجِعُوا قَالَ مَنْ يَذْهَبُ فِي إِثْرِهِمْ فَانْتَدَبَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا قَالَ كَانَ فِيهِمْ أَبُو بَكْرٍ وَالزُّبَيْرُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4077

کتاب: غزوات کے بیان میں باب: وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی آواز کو عملاً قبول کیا ( یعنی ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیل کے لیے فوراً تیار ہو گئے ) ہم سے محمد نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابومعاویہ نے بیان کیا ، ان سے ہشام نے بیان کیا ، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ( آیت ) ” وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہا۔ “ انہوں نے عروہ سے اس آیت کے متعلق کہا ، میرے بھانجے ! تمہارے والد زبیر رضی اللہ عنہ اور ( نانا ) ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی انہیں میں سے تھے۔ احد کی لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کچھ تکلیف پہنچنی تھی جب وہ پہنچی اور مشرکین واپس جانے لگے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا خطرہ ہوا کہ کہیں وہ پھر لوٹ کر حملہ نہ کریں۔ اس لیے آپ نے فرمایا کہ ان کا پیچھا کرنے کون کون جائیں گے۔ اسی وقت ستر صحابہ رضی اللہ عنہم تیار ہوگئے۔ راوی نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ بھی انہیں میں سے تھے۔
تشریح : یہ تعاقب جنگ احد کے خاتمے پر اس لیے کیا گیا کہ مشرکین یہ نہ سمجھیں کہ احد کے نقصان نے مسلمانوں کو نڈھال کردیا ہے اور اگر ان پر دوبارہ حملہ کیا گیا تو وہ کامیاب ہوجائیں گے ۔ مسلمانوں نے ثابت کر دکھا یا کہ وہ احد کے عظیم نقصانات کے بعد بھی کفار کے مقابلہ کے لیے ہمہ تن تیار ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ کے ہر دور میں یہی شان رہی ہے کہ حوادث سے مایوس ہو کر میدان سے نہیں ہٹے بلکہ حالات کا استقلال سے مقابلہ کیا اور آخر کامیابی ان ہی کو ملی ۔ آج بھی دینائے اسلام کا یہی حال ہے مگر مایوسی کفر ہے۔ یہ تعاقب جنگ احد کے خاتمے پر اس لیے کیا گیا کہ مشرکین یہ نہ سمجھیں کہ احد کے نقصان نے مسلمانوں کو نڈھال کردیا ہے اور اگر ان پر دوبارہ حملہ کیا گیا تو وہ کامیاب ہوجائیں گے ۔ مسلمانوں نے ثابت کر دکھا یا کہ وہ احد کے عظیم نقصانات کے بعد بھی کفار کے مقابلہ کے لیے ہمہ تن تیار ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ کے ہر دور میں یہی شان رہی ہے کہ حوادث سے مایوس ہو کر میدان سے نہیں ہٹے بلکہ حالات کا استقلال سے مقابلہ کیا اور آخر کامیابی ان ہی کو ملی ۔ آج بھی دینائے اسلام کا یہی حال ہے مگر مایوسی کفر ہے۔