‌صحيح البخاري - حدیث 4072

كِتَابُ المَغَازِي بَابُ قَتْلِ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ المُطَّلِبِ ؓ صحيح حَدَّثَنِي أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيِّ قَالَ خَرَجْتُ مَعَ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ فَلَمَّا قَدِمْنَا حِمْصَ قَالَ لِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَدِيٍّ هَلْ لَكَ فِي وَحْشِيٍّ نَسْأَلُهُ عَنْ قَتْلِ حَمْزَةَ قُلْتُ نَعَمْ وَكَانَ وَحْشِيٌّ يَسْكُنُ حِمْصَ فَسَأَلْنَا عَنْهُ فَقِيلَ لَنَا هُوَ ذَاكَ فِي ظِلِّ قَصْرِهِ كَأَنَّهُ حَمِيتٌ قَالَ فَجِئْنَا حَتَّى وَقَفْنَا عَلَيْهِ بِيَسِيرٍ فَسَلَّمْنَا فَرَدَّ السَّلَامَ قَالَ وَعُبَيْدُ اللَّهِ مُعْتَجِرٌ بِعِمَامَتِهِ مَا يَرَى وَحْشِيٌّ إِلَّا عَيْنَيْهِ وَرِجْلَيْهِ فَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ يَا وَحْشِيُّ أَتَعْرِفُنِي قَالَ فَنَظَرَ إِلَيْهِ ثُمَّ قَالَ لَا وَاللَّهِ إِلَّا أَنِّي أَعْلَمُ أَنَّ عَدِيَّ بْنَ الْخِيَارِ تَزَوَّجَ امْرَأَةً يُقَالُ لَهَا أُمُّ قِتَالٍ بِنْتُ أَبِي الْعِيصِ فَوَلَدَتْ لَهُ غُلَامًا بِمَكَّةَ فَكُنْتُ أَسْتَرْضِعُ لَهُ فَحَمَلْتُ ذَلِكَ الْغُلَامَ مَعَ أُمِّهِ فَنَاوَلْتُهَا إِيَّاهُ فَلَكَأَنِّي نَظَرْتُ إِلَى قَدَمَيْكَ قَالَ فَكَشَفَ عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ وَجْهِهِ ثُمَّ قَالَ أَلَا تُخْبِرُنَا بِقَتْلِ حَمْزَةَ قَالَ نَعَمْ إِنَّ حَمْزَةَ قَتَلَ طُعَيْمَةَ بْنَ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ بِبَدْرٍ فَقَالَ لِي مَوْلَايَ جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ إِنْ قَتَلْتَ حَمْزَةَ بِعَمِّي فَأَنْتَ حُرٌّ قَالَ فَلَمَّا أَنْ خَرَجَ النَّاسُ عَامَ عَيْنَيْنِ وَعَيْنَيْنِ جَبَلٌ بِحِيَالِ أُحُدٍ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ وَادٍ خَرَجْتُ مَعَ النَّاسِ إِلَى الْقِتَالِ فَلَمَّا أَنْ اصْطَفُّوا لِلْقِتَالِ خَرَجَ سِبَاعٌ فَقَالَ هَلْ مِنْ مُبَارِزٍ قَالَ فَخَرَجَ إِلَيْهِ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ يَا سِبَاعُ يَا ابْنَ أُمِّ أَنْمَارٍ مُقَطِّعَةِ الْبُظُورِ أَتُحَادُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ثُمَّ شَدَّ عَلَيْهِ فَكَانَ كَأَمْسِ الذَّاهِبِ قَالَ وَكَمَنْتُ لِحَمْزَةَ تَحْتَ صَخْرَةٍ فَلَمَّا دَنَا مِنِّي رَمَيْتُهُ بِحَرْبَتِي فَأَضَعُهَا فِي ثُنَّتِهِ حَتَّى خَرَجَتْ مِنْ بَيْنِ وَرِكَيْهِ قَالَ فَكَانَ ذَاكَ الْعَهْدَ بِهِ فَلَمَّا رَجَعَ النَّاسُ رَجَعْتُ مَعَهُمْ فَأَقَمْتُ بِمَكَّةَ حَتَّى فَشَا فِيهَا الْإِسْلَامُ ثُمَّ خَرَجْتُ إِلَى الطَّائِفِ فَأَرْسَلُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَسُولًا فَقِيلَ لِي إِنَّهُ لَا يَهِيجُ الرُّسُلَ قَالَ فَخَرَجْتُ مَعَهُمْ حَتَّى قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا رَآنِي قَالَ آنْتَ وَحْشِيٌّ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ أَنْتَ قَتَلْتَ حَمْزَةَ قُلْتُ قَدْ كَانَ مِنْ الْأَمْرِ مَا بَلَغَكَ قَالَ فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تُغَيِّبَ وَجْهَكَ عَنِّي قَالَ فَخَرَجْتُ فَلَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ مُسَيْلِمَةُ الْكَذَّابُ قُلْتُ لَأَخْرُجَنَّ إِلَى مُسَيْلِمَةَ لَعَلِّي أَقْتُلُهُ فَأُكَافِئَ بِهِ حَمْزَةَ قَالَ فَخَرَجْتُ مَعَ النَّاسِ فَكَانَ مِنْ أَمْرِهِ مَا كَانَ قَالَ فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ فِي ثَلْمَةِ جِدَارٍ كَأَنَّهُ جَمَلٌ أَوْرَقُ ثَائِرُ الرَّأْسِ قَالَ فَرَمَيْتُهُ بِحَرْبَتِي فَأَضَعُهَا بَيْنَ ثَدْيَيْهِ حَتَّى خَرَجَتْ مِنْ بَيْنِ كَتِفَيْهِ قَالَ وَوَثَبَ إِلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَضَرَبَهُ بِالسَّيْفِ عَلَى هَامَتِهِ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْفَضْلِ فَأَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ يَقُولُ فَقَالَتْ جَارِيَةٌ عَلَى ظَهْرِ بَيْتٍ وَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَتَلَهُ الْعَبْدُ الْأَسْوَدُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4072

کتاب: غزوات کے بیان میں باب: حضرت حمزہ بن عبد المطلب ؓ کی شہادت کا بیان مجھ سے ابو جعفر محمد بن عبد اللہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے حجین بن مثنی نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبد العزیز بن عبد اللہ بن ابی سلمہ نے بیان کیا ، ان سے عبد اللہ بن فضل نے ، ان سے سلیمان بن یسار نے ، ان سے جعفر بن عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں عبید اللہ بن عدی بن خیار رضی اللہ عنہ کے سا تھ روانہ ہوا۔ جب حمص پہنچے تو مجھ سے عبید اللہ رضی اللہ عنہ نے کہا ، آپ کو وحشی ( ابن حرب حبشی جس نے غزوئہ احد میں حمزہ رضی اللہ عنہ کو قتل کیا اور ہندہ زوجہ ابو سفیان نے ان کی لاش کا مثلہ کیا تھا ) سے تعارف ہے۔ ہم چل کے ان سے حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بارے میں معلوم کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے ضرور چلو۔ وحشی حمص میں موجود تھے۔ چنانچہ ہم نے لوگوں سے ان کے بارے میں معلوم کیا تو ہمیں بتایا گیا کہ وہ اپنے مکان کے سائے میں بیٹھے ہوئے ہیں ، جیسے کوئی بڑا سا کپا ہو۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر ہم ان کے پاس آئے اور تھوڑی دیر ان کے پاس کھڑے رہے ، پھر سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دیا۔ بیان کیا کہ عبید اللہ نے اپنے عمامہ کو جسم پر اس طرح لپیٹ رکھا تھا کہ وحشی صرف ان کی آنکھیں اور پاؤں دیکھ سکتے تھے۔ عبید اللہ نے پوچھا ، اے وحشی ! کیا تم نے مجھے پہچانا ؟ راوی نے بیان کیا کہ پھر اس نے عبید اللہ کو دیکھا اور کہا کہ نہیں ، خدا کی قسم ! البتہ میں اتنا جانتا ہوں کہ عدی بن خیار نے ایک عورت سے نکاح کیا تھا ، اسے ام قتال بنت ابی العیص کہا جا تا تھا پھر مکہ میں اس کے یہاں ایک بچہ پیدا ہوا اور میں اس کے لیے کسی انا کی تلاش کے لیے گیا تھا۔ پھر میں اس بچے کو اس کی ( رضاعی ) ماں کے پاس لے گیا اور اس کی والدہ بھی ساتھ تھی۔ غالباً میں نے تمہارے پاؤں دیکھے تھے۔ بیان کیا کہ اس پر عبید اللہ بن عدی رضی اللہ عنہ نے اپنے چہرے سے کپڑا ہٹا لیا اور کہا ، ہمیں تم حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے واقعات بتا سکتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ، بات یہ ہوئی کہ بدر کی لڑائی میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے طعیمہ بن عدی بن خیار کو قتل کیا تھا۔ میرے آقا جبیر بن مطعم نے مجھ سے کہا کہ اگر تم نے حمزہ رضی اللہ عنہ کو میرے چچا ( طعیمہ ) کے بدلے میں قتل کردیا تو تم آزاد ہو جاؤ گے۔ انہوں نے بتایا کہ پھر جب قریش عینین کی جنگ کے لیے نکلے۔ عینین احد کی ایک پہاڑی ہے اور اس کے اور احد کے درمیان ایک وادی حائل ہے۔ تو میں بھی ان کے ساتھ جنگ کے ارادہ سے ہو لیا۔ جب ( دونوں فوجیں آمنے سامنے ) لڑنے کے لیے صف آراءہوگئیں تو ( قریش کی صف میں سے ) سباع بن عبدالعزیٰ نکلا اور اس نے آواز دی ، ہے کوئی لڑنے والا ؟ بیان کیا کہ ( اس کی اس دعوت مبازرت پر ) امیر حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ نکل کر آئے اور فرمایا ، اے سباع ! اے ام انمار کے بیٹے ! جو عورتوں کے ختنے کیا کرتی تھی ، تو اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے آیا ہے ؟ بیان کیا کہ پھر حمزہ رضی اللہ عنہ نے اس پر حملہ کیا ( اور اسے قتل کردیا ) اب وہ واقعہ گزرے ہوئے دن کی طرح ہوچکا تھا۔ وحشی نے بیان کیا کہ ادھر میں ایک چٹان کے نیچے حمزہ رضی اللہ عنہ کی تاک میں تھا اور جوں ہی وہ مجھ سے قریب ہوئے ، میں نے ان پر اپنا چھوٹا نیزہ پھینک کر مارا ، نیزہ ان کی ناف کے نیچے جاکر لگا اور ان کی سرین کے پار ہوگیا۔ بیان کیا کہ یہی ان کی شہادت کا سبب بنا ، پھر جب قریش واپس ہوئے تو میں بھی ان کے ساتھ واپس آگیا اور مکہ میں مقیم رہا۔ لیکن جب مکہ بھی اسلامی سلطنت کے تحت آگیا تو میں طائف چلا گیا۔ طائف والوں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک قاصد بھیجا تو مجھ سے وہاں کے لوگوں نے کہا کہ انبیاءکسی پر زیادتی نہیں کرتے ( اس لیے تم مسلمان ہوجاؤ۔ اسلام قبول کرنے کے بعد تمہاری پچھلی تمام غلطیاں معاف ہو جائیں گی ) چنانچہ میں بھی ان کے ساتھ روانہ ہوا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا اور آپ نے مجھے دیکھا تو دریافت فرمایا ، کیا تمہارا ہی نام وحشی ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کیا تمہیں نے حمزہ رضی اللہ عنہ کو قتل کیا تھا ؟ میں نے عرض کیا ، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معاملے میں معلوم ہے وہی صحیح ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا ، کیا تم ایسا کرسکتے ہو کہ اپنی صورت مجھے کبھی نہ دکھاؤ ؟ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں وہاں سے نکل گیا۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جب وفات ہوئی تو مسیلمہ کذاب نے خروج کیا۔ اب میں نے سوچا کہ مجھے مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ میں ضرور شرکت کرنی چاہیے۔ ممکن ہے میں اسے قتل کردوں اور ا س طرح حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قتل کا بدل ہو سکے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں بھی اس کے خلاف جنگ کے لیے مسلمانوں کے ساتھ نکلا۔ اس سے جنگ کے واقعات سب کو معلوم ہیں۔ بیان کیا کہ ( میدان جنگ میں ) میں نے دیکھا کہ ایک شخص ( مسیلمہ ) ایک دیوار کی دراز سے لگا کھڑا ہے۔ جیسے گندمی رنگ کا کوئی اونٹ ہو۔ سر کے بال پریشان تھے۔ بیان کیا کہ میں نے اس پر بھی اپنا چھوٹا نیزہ پھینک کر مارا۔ نیزہ اس کے سینے پر لگا اور شانوں کو پار کرگیا۔ بیان کیا کہ اتنے میں ایک صحابی انصاری جھپٹے اور تلوار سے اس کی کھوپڑی پر مارا۔ ( عبد العزیز بن عبد اللہ نے ) بیان کیا ، ان سے عبد اللہ بن فضل نے بیان کیاکہ پھر مجھے سلیمان بن یسار نے خبر دی اور انہوں نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا ، وہ بیان کر رہے تھے کہ ( مسیلمہ کے قتل کے بعد ) ایک لڑکی نے چھت پر کھڑی ہو کر اعلان کیا کہ امیرالمومنین کو ایک کالے غلام ( یعنی حضرت وحشی ) نے قتل کردیا
تشریح : عرب میں مردوں کی طرح عورتوں کا بھی ختنہ ہوتا تھا اور جس طرح مردوں کے ختنے مرد کیا کرتے تھے عورتوں کے ختنے عورتیں کیا کرتی تھیں ۔ یہ طریقہ جاہلیت میں بھی رائج تھا اور اسلام نے اسے باقی رکھا کیونکہ ابراہیم علیہ السلام کی جو بعض سنتیں عربوں باقی رہ گئی تھیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی ۔ چونکہ سباع بن عبدالعزی کی ماں عورتوں کے ختنے کیا کرتی تھی اس لیے حمزہ رضی اللہ عنہ نے اسے اس کی ماں کے پیشے کی عار دلائی۔ وحشی مسلمان ہو گیا اور اسلام لانے بعد اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے گئے۔ لیکن انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے محترم چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو قتل کیا تھا اتنی بے دردی سے کہ جب وہ شہید ہو گئے تو ان کا سینہ چاک کرکے اندر سے دل نکالا اور لاش کو بگاڑدیا ۔ اس لیے یہ ایک قدرتی بات تھی کہ انہیں دیکھ کر حمزہ رضی اللہ عنہ کی غم انگیز شہادت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد آجاتی ۔ اس لیے آپ نے اس کو اپنے سے دور رہنے کے لیے فرمایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو سید الشہداءقرار دیا۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں: قال خرج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یلتمس حمزۃ فوجدہ ببطن الوادی قد مثل بہ فقال: لولا ان تحزن صفیۃ بنت عبدالمطلب وتکون سنۃ بعدی لترکتہ حتی یحشر من بطون السباع وتواصل الطیر زاد ابن ہشام قال: وقال: لن اصاب بمثلک ابدا ونزل جبرئیل فقال: ان حمزۃ مکتوب فی السماءاسد اللہ واسد رسولہ وروی البزار والطبرانی باسناد فیہ ضعف عن ابی ھریرۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم لما رای حمزۃ قد مثل بہ قال: رحمہ اللہ علیک لقد کنت وصولا للرحم فعولا للخیر ولولا حزن من بعدک لسرنی ان ادعک حتی من اجواف شتی ثم حلف وہو بمکانہ لا مثلن بسبعین منھم فنزل القرآن وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ماعوقبتم بہ الایۃ الخ ( فتح الباری ) یعنی احد کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی لاش تلاش کرنے نکلے تو اس کو ایک وادی میں پایا جس کا مثلہ کردیا گیا تھا ۔ آپ کو اسے دیکھ کر اتنا غم ہوا کہ آپ نے فرمایا اگر یہ خیال نہ ہوتا کہ صفیہ بنت عبد المطلب کو اپنے بھائی کی لاش کا یہ حال دیکھ کر کس قدر صدمہ ہوگا اور یہ خیال نہ ہوتا کہ لوگ میرے بعد ہر شہید کی لاش کے ساتھ ایسا ہی کرنا سنت سمجھ لیں گے تو میں اس لاش کو اسی حالت میں چھوڑ دیتا۔ اسے درندے اور پرندے کھا جاتے اور یہ قیامت کے دن ان کے پیٹوں سے نکل کر میدان حشر میں حاضر ہوتے۔ ابن ہشام نے یہ زیادہ کیا کہ آپ نے فرمایا اے حمزہ ! ایسا برتاؤ جیسا تمہارے ساتھ ان کافروں نے کیا ہے کسی کے ساتھ کبھی نہ ہوا ہوگا۔ اسی اثناءمیں حضرت جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور فرمایا کہ حضرت ا میر حمزہ رضی اللہ عنہ کا آسمانوں میں یہ نام لکھ دیا گیا ہے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے شیر ہیں اور بزار اور طبرانی میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی لاش کو دیکھا تو فرمایا اے حمزہ! اللہ پاک تم پر رحم کرے ۔ تم بہت ہی صلہ رحمی کرنے والے بہت ہی نیک کام کرنے والے تھے اور اگر تمہارے بعد یہ غم باقی رہنے کا ڈر نہ ہوتا تو میری خوشی تھی کہ تمہاری لاش اسی حال میں چھوڑدیتا اور تم کو مختلف جانورکھا جاتے اور تم ان کے پیٹوں سے نکل کر میدان حشر میں حاضری دیتے۔ پھر آپ نے اسی جگہ قسم کھائی کہ میں کفار کے ستر آدمیوں کے ساتھ یہی معاملہ کروں گا۔ اس موقع پر قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی اور اگر تم دشمنوں کو تکلیف دینا چاہو تو اسی قدر دے سکتے ہو جتنی تم کو ان کی طرف سے دی گئی ہے اور اگر صبر کرو اور کوئی بدلہ نہ لو تو صبر کرنے والوں کے لیے یہی بہتر ہے۔ اس آیت کے نازل ہونے پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یا اللہ ! میں اب بالکل بدلہ نہ لوں گا بلکہ صبر ہی کروں گا ۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ عرب میں مردوں کی طرح عورتوں کا بھی ختنہ ہوتا تھا اور جس طرح مردوں کے ختنے مرد کیا کرتے تھے عورتوں کے ختنے عورتیں کیا کرتی تھیں ۔ یہ طریقہ جاہلیت میں بھی رائج تھا اور اسلام نے اسے باقی رکھا کیونکہ ابراہیم علیہ السلام کی جو بعض سنتیں عربوں باقی رہ گئی تھیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی ۔ چونکہ سباع بن عبدالعزی کی ماں عورتوں کے ختنے کیا کرتی تھی اس لیے حمزہ رضی اللہ عنہ نے اسے اس کی ماں کے پیشے کی عار دلائی۔ وحشی مسلمان ہو گیا اور اسلام لانے بعد اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے گئے۔ لیکن انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے محترم چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو قتل کیا تھا اتنی بے دردی سے کہ جب وہ شہید ہو گئے تو ان کا سینہ چاک کرکے اندر سے دل نکالا اور لاش کو بگاڑدیا ۔ اس لیے یہ ایک قدرتی بات تھی کہ انہیں دیکھ کر حمزہ رضی اللہ عنہ کی غم انگیز شہادت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد آجاتی ۔ اس لیے آپ نے اس کو اپنے سے دور رہنے کے لیے فرمایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو سید الشہداءقرار دیا۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں: قال خرج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یلتمس حمزۃ فوجدہ ببطن الوادی قد مثل بہ فقال: لولا ان تحزن صفیۃ بنت عبدالمطلب وتکون سنۃ بعدی لترکتہ حتی یحشر من بطون السباع وتواصل الطیر زاد ابن ہشام قال: وقال: لن اصاب بمثلک ابدا ونزل جبرئیل فقال: ان حمزۃ مکتوب فی السماءاسد اللہ واسد رسولہ وروی البزار والطبرانی باسناد فیہ ضعف عن ابی ھریرۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم لما رای حمزۃ قد مثل بہ قال: رحمہ اللہ علیک لقد کنت وصولا للرحم فعولا للخیر ولولا حزن من بعدک لسرنی ان ادعک حتی من اجواف شتی ثم حلف وہو بمکانہ لا مثلن بسبعین منھم فنزل القرآن وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ماعوقبتم بہ الایۃ الخ ( فتح الباری ) یعنی احد کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی لاش تلاش کرنے نکلے تو اس کو ایک وادی میں پایا جس کا مثلہ کردیا گیا تھا ۔ آپ کو اسے دیکھ کر اتنا غم ہوا کہ آپ نے فرمایا اگر یہ خیال نہ ہوتا کہ صفیہ بنت عبد المطلب کو اپنے بھائی کی لاش کا یہ حال دیکھ کر کس قدر صدمہ ہوگا اور یہ خیال نہ ہوتا کہ لوگ میرے بعد ہر شہید کی لاش کے ساتھ ایسا ہی کرنا سنت سمجھ لیں گے تو میں اس لاش کو اسی حالت میں چھوڑ دیتا۔ اسے درندے اور پرندے کھا جاتے اور یہ قیامت کے دن ان کے پیٹوں سے نکل کر میدان حشر میں حاضر ہوتے۔ ابن ہشام نے یہ زیادہ کیا کہ آپ نے فرمایا اے حمزہ ! ایسا برتاؤ جیسا تمہارے ساتھ ان کافروں نے کیا ہے کسی کے ساتھ کبھی نہ ہوا ہوگا۔ اسی اثناءمیں حضرت جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور فرمایا کہ حضرت ا میر حمزہ رضی اللہ عنہ کا آسمانوں میں یہ نام لکھ دیا گیا ہے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے شیر ہیں اور بزار اور طبرانی میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی لاش کو دیکھا تو فرمایا اے حمزہ! اللہ پاک تم پر رحم کرے ۔ تم بہت ہی صلہ رحمی کرنے والے بہت ہی نیک کام کرنے والے تھے اور اگر تمہارے بعد یہ غم باقی رہنے کا ڈر نہ ہوتا تو میری خوشی تھی کہ تمہاری لاش اسی حال میں چھوڑدیتا اور تم کو مختلف جانورکھا جاتے اور تم ان کے پیٹوں سے نکل کر میدان حشر میں حاضری دیتے۔ پھر آپ نے اسی جگہ قسم کھائی کہ میں کفار کے ستر آدمیوں کے ساتھ یہی معاملہ کروں گا۔ اس موقع پر قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی اور اگر تم دشمنوں کو تکلیف دینا چاہو تو اسی قدر دے سکتے ہو جتنی تم کو ان کی طرف سے دی گئی ہے اور اگر صبر کرو اور کوئی بدلہ نہ لو تو صبر کرنے والوں کے لیے یہی بہتر ہے۔ اس آیت کے نازل ہونے پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یا اللہ ! میں اب بالکل بدلہ نہ لوں گا بلکہ صبر ہی کروں گا ۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔