‌صحيح البخاري - حدیث 4052

كِتَابُ المَغَازِي بَابٌ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ أَخْبَرَنَا عَمْرٌو عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ نَكَحْتَ يَا جَابِرُ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ مَاذَا أَبِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا قُلْتُ لَا بَلْ ثَيِّبًا قَالَ فَهَلَّا جَارِيَةً تُلَاعِبُكَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبِي قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ وَتَرَكَ تِسْعَ بَنَاتٍ كُنَّ لِي تِسْعَ أَخَوَاتٍ فَكَرِهْتُ أَنْ أَجْمَعَ إِلَيْهِنَّ جَارِيَةً خَرْقَاءَ مِثْلَهُنَّ وَلَكِنْ امْرَأَةً تَمْشُطُهُنَّ وَتَقُومُ عَلَيْهِنَّ قَالَ أَصَبْتَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4052

کتاب: غزوات کے بیان میں باب ہم سے قتیبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، کہا ہم کو عمرو بن دینار نے خبر دی اور ان سے حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا ، جابر ! کیا نکاح کر لیا ؟ میں نے عرض کیا ، جی ہاں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کنواری سے یا بیوہ سے ؟ میں نے عرض کیا کہ بیوہ سے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کسی کنواری لڑکی سے کیوں نہ کیا ؟ جو تمہارے ساتھ کھیلا کرتی۔ میں نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! میرے والد احد کی لڑائی میں شہید ہوگئے۔ نو لڑکیاں چھوڑیں۔ پس میری نو بہنیں موجود ہیں۔ اسی لیے میں نے مناسب نہیں خیال کیا کہ انہیں جیسی نا تجربہ کا ر لڑکی ان کے پاس لاکر بٹھادوں ، بلکہ ایک ایسی عورت لاؤں جو ان کی دیکھ بھال کر سکے اور ان کی صفائی وستھرائی کا خیال رکھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے اچھا کیا۔
تشریح : حضرت جابر رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس خیال سے لائے تھے کہ آپ کو دیکھ کر قرض خواہ کچھ قرض چھوڑدیں گے لیکن نتیجہ الٹا ہوا۔ قرض خواہ یہ سمجھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جابر رضی اللہ عنہ پر نظر عنایت ہے ۔ اگر جابر رضی اللہ عنہ کے والد کا مال کافی نہ ہوگا تو باقی قرضہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے پاس سے ادا کردیں گے ۔ اس لیے انہوں نے اور سخت تقاضا شروع کیا لیکن اللہ نے اپنے رسول کی دعا قبول کی اور مال میں کافی برکت ہو گئی۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس خیال سے لائے تھے کہ آپ کو دیکھ کر قرض خواہ کچھ قرض چھوڑدیں گے لیکن نتیجہ الٹا ہوا۔ قرض خواہ یہ سمجھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جابر رضی اللہ عنہ پر نظر عنایت ہے ۔ اگر جابر رضی اللہ عنہ کے والد کا مال کافی نہ ہوگا تو باقی قرضہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے پاس سے ادا کردیں گے ۔ اس لیے انہوں نے اور سخت تقاضا شروع کیا لیکن اللہ نے اپنے رسول کی دعا قبول کی اور مال میں کافی برکت ہو گئی۔