‌صحيح البخاري - حدیث 4048

كِتَابُ المَغَازِي بَابُ غَزْوَةِ أُحُدٍ صحيح أَخْبَرَنَا حَسَّانُ بْنُ حَسَّانَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ عَمَّهُ غَابَ عَنْ بَدْرٍ فَقَالَ غِبْتُ عَنْ أَوَّلِ قِتَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَئِنْ أَشْهَدَنِي اللَّهُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَرَيَنَّ اللَّهُ مَا أُجِدُّ فَلَقِيَ يَوْمَ أُحُدٍ فَهُزِمَ النَّاسُ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعْتَذِرُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ هَؤُلَاءِ يَعْنِي الْمُسْلِمِينَ وَأَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا جَاءَ بِهِ الْمُشْرِكُونَ فَتَقَدَّمَ بِسَيْفِهِ فَلَقِيَ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ فَقَالَ أَيْنَ يَا سَعْدُ إِنِّي أَجِدُ رِيحَ الْجَنَّةِ دُونَ أُحُدٍ فَمَضَى فَقُتِلَ فَمَا عُرِفَ حَتَّى عَرَفَتْهُ أُخْتُهُ بِشَامَةٍ أَوْ بِبَنَانِهِ وَبِهِ بِضْعٌ وَثَمَانُونَ مِنْ طَعْنَةٍ وَضَرْبَةٍ وَرَمْيَةٍ بِسَهْمٍ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4048

کتاب: غزوات کے بیان میں باب: غزوئہ احد کا بیان ہم سے حسان بن حسان نے بیان کیا ، کہا ہم سے محمد بن طلحہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے حمید طویل نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ ان کے چچا ( انس بن نضر ) بدر کی لڑائی میں شریک نہ ہو سکے تھے ، پھر انہوں نے کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پہلی ہی لڑائی میں غیر حاضر رہا۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مجھے کسی اور لڑائی میں شرکت کا موقع دیا تو اللہ دیکھے گا کہ میں کتنی بے جگری سے لڑتا ہوں۔ پھر غزوہ احد کے موقع پر جب مسلمانوں کی جماعت میں افراتفری پیدا ہوگئی تو انہوں نے کہا ، اے اللہ ! مسلمانوں نے آج جو کچھ کیا میں تیرے حضور میں اس کے لیے معذرت خواہ ہوں اور مشرکین نے جو کچھ کیا میں تیرے حضور میں اس سے اپنی بیزاری ظاہر کرتا ہوں۔ پھر وہ اپنی تلوار لے کر آگے بڑھے۔ راستے میں حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ان سے کہا ، سعد ! کہاں جارہے ہو ؟ میں تو احد پہاڑی کے دامن میں جنت کی خوشبو سونگھ رہا ہوں۔ اس کے بعدوہ آگے بڑھے اور شہید کردیئے گئے۔ ان کی لاش پہچانی نہیں جا رہی تھی۔ آخر ان کی بہن نے ایک تل یا ان کی انگلیوں کے پور سے ان کی لاش کو پہچانا۔ انکو اسّی ( 80 ) پر کئی زخم بھالے اور تلوار اور تیر وں کے لگے تھے۔
تشریح : ابن شکوال نے کہا اس شخص کا نام عمیر بن حمام رضی اللہ عنہ تھا ۔ مسلم کی روایت میں ہے کہ عمیر بن حمام رضی اللہ عنہ نے جنگ احد کے دن کچھ کھجوریں نکالیں ان کو کھانے لگے پھر کہنے لگے ان کھجورں کے تمام کرنے تک اگر میں جیتا رہا تو یہ بڑی لمبی زندگی ہو گی چنانچہ جاکر لڑنے لگے اور مارے گئے۔ اسد الغابہ میں ہے کہ عمیر بدر کے دن مارے گئے اور یہ سب انصار میں پہلے شخص تھے جو اللہ کی راہ میں جنگ میں مارے گئے ۔ ابن اسحاق نے روایت کی ہے کہ عمیر بن حمام رضی اللہ عنہ جب کافروں سے جنگ بدر میں بھڑ گئے تو یہ کہنے لگے کہ اللہ کے پاس جاتا ہوں ۔ توشہ ووشہ کچھ نہیں البتہ خدا کا ڈر اور آخرت میں کام آنے والا عمل اور جہاد پر صبر ہے۔ بے شک خدا کا ڈر نہایت مضبوط کرنے والا امر ہے ۔ انس بن نضر انصاری رضی اللہ عنہ کو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ملے جو گھبرائے ہوئے تھے ۔ انہوں نے کہا بڑا غضب ہو گیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ۔ انس رضی اللہ نے کہا کہ پھر اب ہم تم زندہ رہ کر کیا کریں گے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا تو زندہ ہے ۔ اس دین پر لڑ کر مرو جس پر پیغمبر لڑ ے یہ کہہ کر انس بن نضر رضی اللہ عنہ کافروں کی صف میں گھس گئے اور لڑتے رہے یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔ کہتے ہیں احد کی جنگ میں کافروں کا جھنڈا طلحہ بن ابی طلحہ نے سنبھالا اس کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مارا ۔ پھر عثمان بن ابی طلحہ نے اس کو امیر حمزہ نے مارا ۔ پھر ابو سعید بن ابی طلحہ نے اس کو سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے مارا۔ پھر نافع بن طلحہ بن ابی طلحہ نے اس کو عاصم بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ نے مارا ۔ پھر حارث بن طلحہ بن ابی طلحہ نے اس کو بھی عاصم نے مارا۔ پھر کلاب بن ابی طلحہ نے اس کو زبیر رضی اللہ عنہ نے مارا ۔ پھر جلاس بن طلحہ نے پھر ارطاۃ بن شرحبیل نے اس کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مارا ۔ پھر شریح بن قارض نے وہ بھی مارا گیا۔ پھر صواب ایک غلام نے اس کو سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ یا حضرت علی رضی اللہ عنہ یا قزمان رضی اللہ عنہ نے مارا ۔ اس کے بعد کافر بھاگ نکلے ( وحیدی ) اس حدیث کے ذیل میں حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم کی ایک اور تقریر درج کی جاتی ہے جو توجہ سے پڑھنے کے لائق ہے ۔ فرماتے ہیں۔ مسلمانو! ہمارے باپ دادا نے ایسی ایسی بہادریاں کرکے خون بہاکر اسلام کو دنیا میں پھیلایا تھا اور اتنا بڑا وسیع ملک حاصل کیا تھا جس کی حد مغرب میں تونس اور اندلس یعنی ہسپانیہ تک اور مشرق میں چین برہما تک اور شمال میں روس تک اور جنوب میں ولایات روم وایران و توران و ہندوستان وعرب وشام ومصر وافریقہ ان کے زیر نگیں تھیں ۔ ہماری عیاشی اور بے دینی نے اب یہ نوبت پہنچائی ہے کہ خاص عرب کے سوا حل اور بلاد بھی کافروں کے قبضے میں آرہے ہیں اور ملک تو اب جا چکے ہیں اب جتنا رہ گیا ہے اس کو بنا لو خواب غفلت سے بیدار ہو تو قرآ ن وحدیث کو مضبوط تھا مو ۔ وما علینا الا البلاغ ( وحیدی ) ابن شکوال نے کہا اس شخص کا نام عمیر بن حمام رضی اللہ عنہ تھا ۔ مسلم کی روایت میں ہے کہ عمیر بن حمام رضی اللہ عنہ نے جنگ احد کے دن کچھ کھجوریں نکالیں ان کو کھانے لگے پھر کہنے لگے ان کھجورں کے تمام کرنے تک اگر میں جیتا رہا تو یہ بڑی لمبی زندگی ہو گی چنانچہ جاکر لڑنے لگے اور مارے گئے۔ اسد الغابہ میں ہے کہ عمیر بدر کے دن مارے گئے اور یہ سب انصار میں پہلے شخص تھے جو اللہ کی راہ میں جنگ میں مارے گئے ۔ ابن اسحاق نے روایت کی ہے کہ عمیر بن حمام رضی اللہ عنہ جب کافروں سے جنگ بدر میں بھڑ گئے تو یہ کہنے لگے کہ اللہ کے پاس جاتا ہوں ۔ توشہ ووشہ کچھ نہیں البتہ خدا کا ڈر اور آخرت میں کام آنے والا عمل اور جہاد پر صبر ہے۔ بے شک خدا کا ڈر نہایت مضبوط کرنے والا امر ہے ۔ انس بن نضر انصاری رضی اللہ عنہ کو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ملے جو گھبرائے ہوئے تھے ۔ انہوں نے کہا بڑا غضب ہو گیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ۔ انس رضی اللہ نے کہا کہ پھر اب ہم تم زندہ رہ کر کیا کریں گے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا تو زندہ ہے ۔ اس دین پر لڑ کر مرو جس پر پیغمبر لڑ ے یہ کہہ کر انس بن نضر رضی اللہ عنہ کافروں کی صف میں گھس گئے اور لڑتے رہے یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔ کہتے ہیں احد کی جنگ میں کافروں کا جھنڈا طلحہ بن ابی طلحہ نے سنبھالا اس کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مارا ۔ پھر عثمان بن ابی طلحہ نے اس کو امیر حمزہ نے مارا ۔ پھر ابو سعید بن ابی طلحہ نے اس کو سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے مارا۔ پھر نافع بن طلحہ بن ابی طلحہ نے اس کو عاصم بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ نے مارا ۔ پھر حارث بن طلحہ بن ابی طلحہ نے اس کو بھی عاصم نے مارا۔ پھر کلاب بن ابی طلحہ نے اس کو زبیر رضی اللہ عنہ نے مارا ۔ پھر جلاس بن طلحہ نے پھر ارطاۃ بن شرحبیل نے اس کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مارا ۔ پھر شریح بن قارض نے وہ بھی مارا گیا۔ پھر صواب ایک غلام نے اس کو سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ یا حضرت علی رضی اللہ عنہ یا قزمان رضی اللہ عنہ نے مارا ۔ اس کے بعد کافر بھاگ نکلے ( وحیدی ) اس حدیث کے ذیل میں حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم کی ایک اور تقریر درج کی جاتی ہے جو توجہ سے پڑھنے کے لائق ہے ۔ فرماتے ہیں۔ مسلمانو! ہمارے باپ دادا نے ایسی ایسی بہادریاں کرکے خون بہاکر اسلام کو دنیا میں پھیلایا تھا اور اتنا بڑا وسیع ملک حاصل کیا تھا جس کی حد مغرب میں تونس اور اندلس یعنی ہسپانیہ تک اور مشرق میں چین برہما تک اور شمال میں روس تک اور جنوب میں ولایات روم وایران و توران و ہندوستان وعرب وشام ومصر وافریقہ ان کے زیر نگیں تھیں ۔ ہماری عیاشی اور بے دینی نے اب یہ نوبت پہنچائی ہے کہ خاص عرب کے سوا حل اور بلاد بھی کافروں کے قبضے میں آرہے ہیں اور ملک تو اب جا چکے ہیں اب جتنا رہ گیا ہے اس کو بنا لو خواب غفلت سے بیدار ہو تو قرآ ن وحدیث کو مضبوط تھا مو ۔ وما علینا الا البلاغ ( وحیدی )