‌صحيح البخاري - حدیث 4045

كِتَابُ المَغَازِي بَابُ غَزْوَةِ أُحُدٍ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدَانُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ إِبْرَاهِيمَ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ أُتِيَ بِطَعَامٍ وَكَانَ صَائِمًا فَقَالَ قُتِلَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ وَهُوَ خَيْرٌ مِنِّي كُفِّنَ فِي بُرْدَةٍ إِنْ غُطِّيَ رَأْسُهُ بَدَتْ رِجْلَاهُ وَإِنْ غُطِّيَ رِجْلَاهُ بَدَا رَأْسُهُ وَأُرَاهُ قَالَ وَقُتِلَ حَمْزَةُ وَهُوَ خَيْرٌ مِنِّي ثُمَّ بُسِطَ لَنَا مِنْ الدُّنْيَا مَا بُسِطَ أَوْ قَالَ أُعْطِينَا مِنْ الدُّنْيَا مَا أُعْطِينَا وَقَدْ خَشِينَا أَنْ تَكُونَ حَسَنَاتُنَا عُجِّلَتْ لَنَا ثُمَّ جَعَلَ يَبْكِي حَتَّى تَرَكَ الطَّعَامَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4045

کتاب: غزوات کے بیان میں باب: غزوئہ احد کا بیان ہم سے عبدان نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبداللہ نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی ، انہیں سعد بن ابراہیم نے ، ان سے ان کے والد ابراہیم نے کہ ( ان کے والد ) عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے پاس کھانا لایا گیا ۔ اور وہ روزے سے تھے تو انہوں نے کہا ، مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ ( احد کی جنگ میں ) شہید کردیئے گئے ، وہ مجھ سے افضل اور بہتر تھے لیکن انہیں جس چادر کا کفن دیا گیا ( وہ اتنی چھوٹی تھی کہ ) اگر اس سے ان کا سر چھپا یاجا تا تو پاؤں کھل جاتا اور پاؤں چھپایا جاتا تو سر کھل جاتا تھا ۔ میرا خیال ہے کہ انہوں نے کہا اور حمزہ رضی اللہ عنہ بھی ( اسی جنگ میں ) شہید کئے گئے ، وہ مجھ سے بہتر اور افضل تھے پھر جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو ، ہمارے لیے دنیا میں کشادگی دی گئی ، یا انہوں نے یہ کہا کہ پھر جیسا کہ تم دیکھتے ہو ، ہمیں دنیا دی گئی ، ہمیں تو اس کا ڈر ہے کہ کہیں یہی ہماری نیکیوں کا بدلہ نہ ہو جو اسی دنیا میں ہمیں دیا جارہا ہے ۔ اس کے بعد آپ روئے کہ کھانا نہ کھا سکے ۔
تشریح : عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے تھے پھر بھی انہوں نے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو کسر نفسی کے لیے اپنے سے بہتربتایا ۔ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ وہ قریشی نوجوان تھے جو ہجرت سے پہلے ہی مدینہ میں بطور مبلغ کام کر رہے تھے۔ جن کی کوششوں سے مدینہ میں اسلام کو فروغ ہوا ۔ صد افسوس کہ شیر اسلام احد میں شہید ہو گیا ۔ ( رضی اللہ عنہ ) عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے تھے پھر بھی انہوں نے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو کسر نفسی کے لیے اپنے سے بہتربتایا ۔ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ وہ قریشی نوجوان تھے جو ہجرت سے پہلے ہی مدینہ میں بطور مبلغ کام کر رہے تھے۔ جن کی کوششوں سے مدینہ میں اسلام کو فروغ ہوا ۔ صد افسوس کہ شیر اسلام احد میں شہید ہو گیا ۔ ( رضی اللہ عنہ )