‌صحيح البخاري - حدیث 4040

كِتَابُ المَغَازِي بَابُ قَتْلِ أَبِي رَافِعٍ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الحُقَيْقِ صحيح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ حَدَّثَنَا شُرَيْحٌ هُوَ ابْنُ مَسْلَمَةَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِي رَافِعٍ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَتِيكٍ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُتْبَةَ فِي نَاسٍ مَعَهُمْ فَانْطَلَقُوا حَتَّى دَنَوْا مِنْ الْحِصْنِ فَقَالَ لَهُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَتِيكٍ امْكُثُوا أَنْتُمْ حَتَّى أَنْطَلِقَ أَنَا فَأَنْظُرَ قَالَ فَتَلَطَّفْتُ أَنْ أَدْخُلَ الْحِصْنَ فَفَقَدُوا حِمَارًا لَهُمْ قَالَ فَخَرَجُوا بِقَبَسٍ يَطْلُبُونَهُ قَالَ فَخَشِيتُ أَنْ أُعْرَفَ قَالَ فَغَطَّيْتُ رَأْسِي وَجَلَسْتُ كَأَنِّي أَقْضِي حَاجَةً ثُمَّ نَادَى صَاحِبُ الْبَابِ مَنْ أَرَادَ أَنْ يَدْخُلَ فَلْيَدْخُلْ قَبْلَ أَنْ أُغْلِقَهُ فَدَخَلْتُ ثُمَّ اخْتَبَأْتُ فِي مَرْبِطِ حِمَارٍ عِنْدَ بَابِ الْحِصْنِ فَتَعَشَّوْا عِنْدَ أَبِي رَافِعٍ وَتَحَدَّثُوا حَتَّى ذَهَبَتْ سَاعَةٌ مِنْ اللَّيْلِ ثُمَّ رَجَعُوا إِلَى بُيُوتِهِمْ فَلَمَّا هَدَأَتْ الْأَصْوَاتُ وَلَا أَسْمَعُ حَرَكَةً خَرَجْتُ قَالَ وَرَأَيْتُ صَاحِبَ الْبَابِ حَيْثُ وَضَعَ مِفْتَاحَ الْحِصْنِ فِي كَوَّةٍ فَأَخَذْتُهُ فَفَتَحْتُ بِهِ بَابَ الْحِصْنِ قَالَ قُلْتُ إِنْ نَذِرَ بِي الْقَوْمُ انْطَلَقْتُ عَلَى مَهَلٍ ثُمَّ عَمَدْتُ إِلَى أَبْوَابِ بُيُوتِهِمْ فَغَلَّقْتُهَا عَلَيْهِمْ مِنْ ظَاهِرٍ ثُمَّ صَعِدْتُ إِلَى أَبِي رَافِعٍ فِي سُلَّمٍ فَإِذَا الْبَيْتُ مُظْلِمٌ قَدْ طَفِئَ سِرَاجُهُ فَلَمْ أَدْرِ أَيْنَ الرَّجُلُ فَقُلْتُ يَا أَبَا رَافِعٍ قَالَ مَنْ هَذَا قَالَ فَعَمَدْتُ نَحْوَ الصَّوْتِ فَأَضْرِبُهُ وَصَاحَ فَلَمْ تُغْنِ شَيْئًا قَالَ ثُمَّ جِئْتُ كَأَنِّي أُغِيثُهُ فَقُلْتُ مَا لَكَ يَا أَبَا رَافِعٍ وَغَيَّرْتُ صَوْتِي فَقَالَ أَلَا أُعْجِبُكَ لِأُمِّكَ الْوَيْلُ دَخَلَ عَلَيَّ رَجُلٌ فَضَرَبَنِي بِالسَّيْفِ قَالَ فَعَمَدْتُ لَهُ أَيْضًا فَأَضْرِبُهُ أُخْرَى فَلَمْ تُغْنِ شَيْئًا فَصَاحَ وَقَامَ أَهْلُهُ قَالَ ثُمَّ جِئْتُ وَغَيَّرْتُ صَوْتِي كَهَيْئَةِ الْمُغِيثِ فَإِذَا هُوَ مُسْتَلْقٍ عَلَى ظَهْرِهِ فَأَضَعُ السَّيْفَ فِي بَطْنِهِ ثُمَّ أَنْكَفِئُ عَلَيْهِ حَتَّى سَمِعْتُ صَوْتَ الْعَظْمِ ثُمَّ خَرَجْتُ دَهِشًا حَتَّى أَتَيْتُ السُّلَّمَ أُرِيدُ أَنْ أَنْزِلَ فَأَسْقُطُ مِنْهُ فَانْخَلَعَتْ رِجْلِي فَعَصَبْتُهَا ثُمَّ أَتَيْتُ أَصْحَابِي أَحْجُلُ فَقُلْتُ انْطَلِقُوا فَبَشِّرُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنِّي لَا أَبْرَحُ حَتَّى أَسْمَعَ النَّاعِيَةَ فَلَمَّا كَانَ فِي وَجْهِ الصُّبْحِ صَعِدَ النَّاعِيَةُ فَقَالَ أَنْعَى أَبَا رَافِعٍ قَالَ فَقُمْتُ أَمْشِي مَا بِي قَلَبَةٌ فَأَدْرَكْتُ أَصْحَابِي قَبْلَ أَنْ يَأْتُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَشَّرْتُهُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4040

کتاب: غزوات کے بیان میں باب: ابو رافع ۔ یہودی عبداللہ بن ابی الحقیق کے قتل کا قصہ ہم سے احمد بن عثمان بن حکیم نے بیان کیا ، ہم سے شریح ابن مسلمہ نے بیان کیا ، ان سے ابراہیم بن یوسف نے بیان کیا ، ان سے ان کے والد یوسف بن اسحاق نے ، ان سے ابو اسحاق نے کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عتیک اور عبداللہ بن عتبہ رضی اللہ عنہما کو چند صحابہ کے ساتھ ابو رافع ( کے قتل ) کے لیے بھیجا ۔ یہ لوگ روانہ ہوئے جب اس کے قلعہ کے نزدیک پہنچے تو عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم لوگ یہیں ٹھہر جاؤ پہلے میں جاتا ہوں ، دیکھوں صورت حال کیا ہے ۔ عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ( قلعہ کے قریب پہنچ کر ) میں اندر جانے کے لیے تدابیر کرنے لگا ۔ اتفاق سے قلعہ کا ایک گدھا گم تھا ۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس گدھے کو تلاش کرنے کے لیے قلعہ والے روشنی لے کر باہر نکلے ۔ بیان کیا کہ میں ڈراکہ کہیں مجھے کوئی پہچان نہ لے ۔ اس لیے میں نے اپنا سر ڈھک لیاجیسے کوئی قضائے حاجت کررہا ہے ۔ اس کے بعد دربان نے آواز دی کہ اس سے پہلے کہ میں دروازہ بند کرلوں جسے قلعہ کے اندر داخل ہونا ہے وہ جلدی آجائے ۔ میں نے ( موقع غنیمت سمجھا اور ) اندر داخل ہو گیا اور قلعہ کے دروازے کے پاس ہی جہاں گدھے باندھے جاتے تھے وہیں چھپ گیا ۔ قلعہ والوں نے ابو رافع کے ساتھ کھانا کھایا اور پھر اسے قصے سناتے رہے ۔ آخر کچھ رات گئے وہ سب قلعہ کے اندر ہی اپنے اپنے گھروں میں واپس آگئے ۔ اب سناٹا چھا چکا تھا اور کہیں کوئی حرکت نہیں ہوتی تھی ۔ اس لیے میں اس طویلہ سے باہر نکلا ۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے پہلے ہی دیکھ لیا تھا کہ دربان نے کنجی ایک طاق میں رکھی ہے ۔ میں نے پہلے کنجی اپنے قبضہ میں لے لی اور پھر سب سے پہلے قلعہ کا دروازہ کھولا ۔ بیان کیا کہ میں نے یہ سوچا تھا کہ اگر قلعہ والوں کو میرا علم ہوگیا تو میں بڑی آسانی کے ساتھ بھاگ سکوں گا ۔ اس کے بعد میں نے ان کے کمروں کے دروازے کھولنے شروع کئے اور انہیں اندر سے بند کرتا جاتا تھا ۔ اب میں زینوں سے ابو رافع کے بالا خانوں تک پہنچ چکا تھا ۔ اس کے کمرہ میں اندھیرا تھا ۔ اس کا چراغ گل کردیا گیا تھا ۔ میں یہ نہیں اندازہ کرپایا تھا کہ ابو رافع کہاں ہے ۔ اس لیے میں نے آوازدی ، اے ابارافع ! اس پر وہ بولا کہ کون ہے ؟ انہوں نے بیان کیا کہ پھر آواز کی طرف میں بڑھا اور میں نے تلوار سے اس پر حملہ کیا ۔ وہ چلانے لگا لیکن یہ وار اوچھا پڑاتھا ۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر دوبارہ میں اس کے قریب پہنچا ، گویا میں اس کی مدد کو آیا ہوں ۔ میں نے آواز بدل کر پوچھا ۔ ابو رافع کیا بات پیش آئی ہے ؟ اس نے کہا تیری ماں غارت ہو ، ابھی کوئی شخص میرے کمرے میں آگیا اور اس نے تلوار سے مجھ پر حملہ کیا ہے ۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس مرتبہ پھر میں نے اس کی آواز کی طرف بڑھ کر دوبارہ حملہ کیا ۔ اس حملہ میں بھی وہ قتل ، نہ ہوسکا ۔ پھر وہ چلانے لگا اور اس کی بیوی بھی اٹھ گئی ( اور چلانے لگی ) انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں بظاہر مدد گار بن کر پہنچا اور میں نے اپنی آواز بدل لی ۔ اس وقت وہ چت لیٹاہوا تھا ۔ میں نے اپنی تلوار اس کے پیٹ پر رکھ کر زور سے اسے دبایا ۔ آخر جب میں نے ہڈی ٹوٹنے کی آواز سن لی تو میں وہاں سے نکلا ، بہت گھبرایا ہوا ۔ اب زینہ پر آچکا تھا ۔ میں اترنا چاہتا تھا کہ نیچے گر پڑا ۔ جس سے میرا پاؤں ٹوٹ گیامیں نے اس پر پٹی باندھی اور لنگڑاتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچا ۔ میں نے ان سے کہا کہ تم لوگ جاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشخبری سناؤ ۔ میں تو یہاں سے اس وقت تک نہیں ہٹوں گا جب تک کہ اس کی موت کا اعلان نہ سن لوں ۔ چنانچہ صبح کے وقت موت کا اعلان کرنے والا ( قلعہ کی فصیل پر ) چڑھا اوراس نے اعلان کیا کہ ابورافع کی موت واقع ہو گئی ہے ۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں چلنے کے لیے اٹھا ، مجھے ( کامیابی کی خوشخبری میں ) کوئی تکلیف معلوم نہیں ہوتی تھی ۔ اس سے پہلے کہ میرے ساتھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت میں پہنچیں ، میں نے اپنے ساتھیوں کو پالیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشخبری سنائی ۔
تشریح : ابورافع یہودی خیبر میں رہتا تھا۔ رئیس التجار اور تاجر الحجاز سے مشہور تھا۔ اسلام کا سخت ترین دشمن ہر وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کیا کرتا تھا۔ غزوئہ خندق کے موقع پر عرب کے مشہور قبائل کو مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے اس نے ابھارا تھا۔ آخر چند خزرجی صحابیوں کی خواہش پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن عتیک انصاری کی قیادت میں پانچ آدمیوں کو اس کے قتل پر مامور فرمایا تھا ۔ ساتھ میں تاکید فرمائی کہ عورتوں اور بچوں کو ہرگز قتل نہ کرنا ۔ چنانچہ وہ ہوا جو حدیث بالا میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے ۔ بعض دفعہ قیام امن کے لیے ایسے مفسدوں کا قتل کرنا دنیا کے ہر قانون میں ضروری ہوجاتا ہے ۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں : عن عبداللہ بن کعب بن مالک قال کان مما صنع اللہ لرسولہ ان الا وس والخزرج کانا یتصاولان تصاول الفحلیں لا تصنع الاوس شیئا الا قالت الخزرج واللہ لا تذھبون بھذہ فضلا علینا وکذلک الاوس فلما اصابت الاوس کعب بن اشرف تذاکرت الخزرج من رجل لہ من العداوۃ لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کما کان لکعب فذکروا ابن ابی الحقیق وھو بخیبر۔ ( فتح الباری ) یعنی اوس اور خزرج کا باہمی حال یہ تھا کہ وہ دونوں قبیلے آپس میں اس طرح رشک کرتے تھے جیسے دو سانڈ آپس میں رشک کرتے ہیں ۔ جب قبیلہ اوس کے ہاتھوں کوئی اہم کام انجام پاتا تو خزرج والے کہتے کہ قسم اللہ کی اس کام کو کرکے تم فضیلت میں ہم سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہم اس سے بھی بڑا کوئی کام انجام دیں گے ۔ اوس کا بھی یہی خیال رہتا تھا ۔ جب قبیلہ اوس نے کعب بن اشرف کو ختم کیا تو خزرج نے سوچا کہ ہم کسی اس سے بڑے دشمن کا خاتمہ کریں گے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت میں اس سے بڑھ کر ہو گا ۔ چنانچہ انہوں نے ابن ابی الحقیق کا انتخاب کیا جو خیبر میں رہتا تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت میں یہ کعب بن اشرف سے بھی آگے بڑھا ہوا تھا ۔ چنانچہ اوس کے جوانوں نے اس ظالم کا خاتمہ کیا۔ جس کی تفصیل یہاں مذکور ہے ۔ روایت میں ابورافع کی جو رو کے جاگنے کا ذکر آیا ہے ۔ ابن اسحاق کی روایت میں ہے کہ وہ جاگ کر چلانے لگی ۔ عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اس پر تلوار اٹھائی لیکن فوراًمجھ کو فرمان نبوی یاد آگیا اور میں نے اسے نہیں مارا۔ آگے حضرت عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ کی ہڈی سرک جانے کا ذکر ہے ۔ اگلی روایت میں پنڈلی ٹوٹ جانے کا ذکر ہے ۔ اور اس میں جوڑ کھل جانے کا دونوں باتوں میں اختلاف نہیں ہے کیونکہ احتمال ہے کہ پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی ہو اور جوڑ بھی کسی جگہ سے کھل گیا ہو۔ ابورافع یہودی خیبر میں رہتا تھا۔ رئیس التجار اور تاجر الحجاز سے مشہور تھا۔ اسلام کا سخت ترین دشمن ہر وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کیا کرتا تھا۔ غزوئہ خندق کے موقع پر عرب کے مشہور قبائل کو مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے اس نے ابھارا تھا۔ آخر چند خزرجی صحابیوں کی خواہش پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن عتیک انصاری کی قیادت میں پانچ آدمیوں کو اس کے قتل پر مامور فرمایا تھا ۔ ساتھ میں تاکید فرمائی کہ عورتوں اور بچوں کو ہرگز قتل نہ کرنا ۔ چنانچہ وہ ہوا جو حدیث بالا میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے ۔ بعض دفعہ قیام امن کے لیے ایسے مفسدوں کا قتل کرنا دنیا کے ہر قانون میں ضروری ہوجاتا ہے ۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں : عن عبداللہ بن کعب بن مالک قال کان مما صنع اللہ لرسولہ ان الا وس والخزرج کانا یتصاولان تصاول الفحلیں لا تصنع الاوس شیئا الا قالت الخزرج واللہ لا تذھبون بھذہ فضلا علینا وکذلک الاوس فلما اصابت الاوس کعب بن اشرف تذاکرت الخزرج من رجل لہ من العداوۃ لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کما کان لکعب فذکروا ابن ابی الحقیق وھو بخیبر۔ ( فتح الباری ) یعنی اوس اور خزرج کا باہمی حال یہ تھا کہ وہ دونوں قبیلے آپس میں اس طرح رشک کرتے تھے جیسے دو سانڈ آپس میں رشک کرتے ہیں ۔ جب قبیلہ اوس کے ہاتھوں کوئی اہم کام انجام پاتا تو خزرج والے کہتے کہ قسم اللہ کی اس کام کو کرکے تم فضیلت میں ہم سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہم اس سے بھی بڑا کوئی کام انجام دیں گے ۔ اوس کا بھی یہی خیال رہتا تھا ۔ جب قبیلہ اوس نے کعب بن اشرف کو ختم کیا تو خزرج نے سوچا کہ ہم کسی اس سے بڑے دشمن کا خاتمہ کریں گے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت میں اس سے بڑھ کر ہو گا ۔ چنانچہ انہوں نے ابن ابی الحقیق کا انتخاب کیا جو خیبر میں رہتا تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت میں یہ کعب بن اشرف سے بھی آگے بڑھا ہوا تھا ۔ چنانچہ اوس کے جوانوں نے اس ظالم کا خاتمہ کیا۔ جس کی تفصیل یہاں مذکور ہے ۔ روایت میں ابورافع کی جو رو کے جاگنے کا ذکر آیا ہے ۔ ابن اسحاق کی روایت میں ہے کہ وہ جاگ کر چلانے لگی ۔ عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اس پر تلوار اٹھائی لیکن فوراًمجھ کو فرمان نبوی یاد آگیا اور میں نے اسے نہیں مارا۔ آگے حضرت عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ کی ہڈی سرک جانے کا ذکر ہے ۔ اگلی روایت میں پنڈلی ٹوٹ جانے کا ذکر ہے ۔ اور اس میں جوڑ کھل جانے کا دونوں باتوں میں اختلاف نہیں ہے کیونکہ احتمال ہے کہ پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی ہو اور جوڑ بھی کسی جگہ سے کھل گیا ہو۔