‌صحيح البخاري - حدیث 4039

كِتَابُ المَغَازِي بَابُ قَتْلِ أَبِي رَافِعٍ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الحُقَيْقِ صحيح حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِي رَافِعٍ الْيَهُودِيِّ رِجَالًا مِنْ الْأَنْصَارِ فَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَتِيكٍ وَكَانَ أَبُو رَافِعٍ يُؤْذِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُعِينُ عَلَيْهِ وَكَانَ فِي حِصْنٍ لَهُ بِأَرْضِ الْحِجَازِ فَلَمَّا دَنَوْا مِنْهُ وَقَدْ غَرَبَتْ الشَّمْسُ وَرَاحَ النَّاسُ بِسَرْحِهِمْ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ لِأَصْحَابِهِ اجْلِسُوا مَكَانَكُمْ فَإِنِّي مُنْطَلِقٌ وَمُتَلَطِّفٌ لِلْبَوَّابِ لَعَلِّي أَنْ أَدْخُلَ فَأَقْبَلَ حَتَّى دَنَا مِنْ الْبَابِ ثُمَّ تَقَنَّعَ بِثَوْبِهِ كَأَنَّهُ يَقْضِي حَاجَةً وَقَدْ دَخَلَ النَّاسُ فَهَتَفَ بِهِ الْبَوَّابُ يَا عَبْدَ اللَّهِ إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ أَنْ تَدْخُلَ فَادْخُلْ فَإِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُغْلِقَ الْبَابَ فَدَخَلْتُ فَكَمَنْتُ فَلَمَّا دَخَلَ النَّاسُ أَغْلَقَ الْبَابَ ثُمَّ عَلَّقَ الْأَغَالِيقَ عَلَى وَتَدٍ قَالَ فَقُمْتُ إِلَى الْأَقَالِيدِ فَأَخَذْتُهَا فَفَتَحْتُ الْبَابَ وَكَانَ أَبُو رَافِعٍ يُسْمَرُ عِنْدَهُ وَكَانَ فِي عَلَالِيَّ لَهُ فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْهُ أَهْلُ سَمَرِهِ صَعِدْتُ إِلَيْهِ فَجَعَلْتُ كُلَّمَا فَتَحْتُ بَابًا أَغْلَقْتُ عَلَيَّ مِنْ دَاخِلٍ قُلْتُ إِنْ الْقَوْمُ نَذِرُوا بِي لَمْ يَخْلُصُوا إِلَيَّ حَتَّى أَقْتُلَهُ فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ فَإِذَا هُوَ فِي بَيْتٍ مُظْلِمٍ وَسْطَ عِيَالِهِ لَا أَدْرِي أَيْنَ هُوَ مِنْ الْبَيْتِ فَقُلْتُ يَا أَبَا رَافِعٍ قَالَ مَنْ هَذَا فَأَهْوَيْتُ نَحْوَ الصَّوْتِ فَأَضْرِبُهُ ضَرْبَةً بِالسَّيْفِ وَأَنَا دَهِشٌ فَمَا أَغْنَيْتُ شَيْئًا وَصَاحَ فَخَرَجْتُ مِنْ الْبَيْتِ فَأَمْكُثُ غَيْرَ بَعِيدٍ ثُمَّ دَخَلْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ مَا هَذَا الصَّوْتُ يَا أَبَا رَافِعٍ فَقَالَ لِأُمِّكَ الْوَيْلُ إِنَّ رَجُلًا فِي الْبَيْتِ ضَرَبَنِي قَبْلُ بِالسَّيْفِ قَالَ فَأَضْرِبُهُ ضَرْبَةً أَثْخَنَتْهُ وَلَمْ أَقْتُلْهُ ثُمَّ وَضَعْتُ ظِبَةَ السَّيْفِ فِي بَطْنِهِ حَتَّى أَخَذَ فِي ظَهْرِهِ فَعَرَفْتُ أَنِّي قَتَلْتُهُ فَجَعَلْتُ أَفْتَحُ الْأَبْوَابَ بَابًا بَابًا حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى دَرَجَةٍ لَهُ فَوَضَعْتُ رِجْلِي وَأَنَا أُرَى أَنِّي قَدْ انْتَهَيْتُ إِلَى الْأَرْضِ فَوَقَعْتُ فِي لَيْلَةٍ مُقْمِرَةٍ فَانْكَسَرَتْ سَاقِي فَعَصَبْتُهَا بِعِمَامَةٍ ثُمَّ انْطَلَقْتُ حَتَّى جَلَسْتُ عَلَى الْبَابِ فَقُلْتُ لَا أَخْرُجُ اللَّيْلَةَ حَتَّى أَعْلَمَ أَقَتَلْتُهُ فَلَمَّا صَاحَ الدِّيكُ قَامَ النَّاعِي عَلَى السُّورِ فَقَالَ أَنْعَى أَبَا رَافِعٍ تَاجِرَ أَهْلِ الْحِجَازِ فَانْطَلَقْتُ إِلَى أَصْحَابِي فَقُلْتُ النَّجَاءَ فَقَدْ قَتَلَ اللَّهُ أَبَا رَافِعٍ فَانْتَهَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثْتُهُ فَقَالَ ابْسُطْ رِجْلَكَ فَبَسَطْتُ رِجْلِي فَمَسَحَهَا فَكَأَنَّهَا لَمْ أَشْتَكِهَا قَطُّ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4039

کتاب: غزوات کے بیان میں باب: ابو رافع ۔ یہودی عبداللہ بن ابی الحقیق کے قتل کا قصہ ہم سے یوسف بن موسیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبید اللہ بن موسیٰ نے بیان کیا ، ان سے اسرائیل نے ، ان سے ابو اسحاق نے اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو رافع یہودی ( کے قتل ) کے لیے چند انصاری صحابہ کو بھیجا اور عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ کو ان کا امیر بنایا ۔ یہ ابو رافع حضور صلی اللہ علیہ وسلم کرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دیا کرتا تھا اور آپ کے دشمنوں کی مدد کیا کرتا تھا ۔ حجاز میں اس کا ایک قلعہ تھا اور وہیں وہ رہا کرتا تھا ۔ جب اس کے قلعہ کے قریب یہ پہنچے تو سورج غروب ہوچکا تھا ۔ اور لوگ اپنے مویشی لے کر ( اپنے گھروں کو ) واپس ہوچکے تھے ۔ عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم لوگ یہیں ٹھہرے رہو میں ( اس قلعہ پر ) جارہا ہوں اور دربان پرکوئی تدبیر کروں گا ۔ تاکہ میں اندر جانے میں کامیاب ہوجاؤں ۔ چنانچہ وہ ( قلعہ کے پاس ) آئے اور دروازے کے قریب پہنچ کر انہوں نے خود کو اپنے کپڑوں میں اس طرح چھپالیا جیسے کوئی قضائے حاجت کر رہا ہو ۔ قلعہ کے تمام آدمی اندر داخل ہوچکے تھے ۔ دربان نے آوازدی ، اے اللہ ! کے بندے اگر اندر آنا ہے تو جلدآجا ، میں اب دروازہ بند کردوںگا ۔ ( عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے کہا ) چنانچہ میں بھی اندر چلا گیا اور چھپ کر اس کی کارروائی دیکھنے لگا ۔ جب سب لوگ اندر آگئے تو اس نے دروازہ بند کیا اور کنجیوں کا گچھا ایک کھونٹی پر لٹکا دیا ۔ انہوں نے بیان کیا کہ اب میں ان کنجیوںکی طرف بڑھا اور میں نے انہیں لے لیا ، پھر میں نے قلعہ کا دروازہ کھول لیا ۔ ابو رافع کے پاس رات کے وقت داستانیں بیان کی جارہی تھیں اور وہ اپنے خاص بالا خانے میں تھا ۔ جب داستان گواس کے یہاں سے اٹھ کر چلے گئے تو میں اس کمرے کی طرف چڑھنے لگا ۔ اس عرصہ میں ، میںجتنے دروازے اس تک پہنچنے کے لیے کھولتا تھا انہیں اندر سے بند کرتا جاتا تھا ۔ میرا مطلب یہ تھا کہ اگر قلعہ والوں کو میرے متعلق علم بھی ہوجائے تو اس وقت تک یہ لوگ میرے پاس نہ پہنچ سکیں جب تک میں اسے قتل نہ کرلوں ۔ آخر میں اس کے قریب پہنچ گیا ۔ اس وقت وہ ایک تاریک کمرے میں اپنے بال بچوں کے ساتھ ( سورہا ) تھا مجھے کچھ اندازہ نہیں ہو سکا کہ وہ کہاں ہے ۔ اس لیے میں نے آوازدی ، یا ابا رافع ؟ وہ بولا کون ہے ؟ اب میں نے آواز کی طرف بڑھ کر تلوار کی ایک ضرب لگائی ۔ اس وقت میرا دل دھک دھک کر رہا تھا ۔ یہی وجہ ہوئی کہ میں اس کا کام تمام نہیں کر سکا ۔ وہ چیخا تو میں کمرے سے باہر نکل آیا اور تھوڑی دیر تک باہر ہی ٹھہرا رہا ۔ پھر دوبارہ اندر گیا اور میں نے آواز بدل کر پوچھا ، ابورافع ! یہ آواز کیسی تھی ؟ وہ بولا تیری ماں غارت ہو ۔ ابھی ابھی مجھ پر کسی نے تلوار سے حملہ کیا ہے ۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر ( آوازکی طرف بڑھ کر ) میں نے تلوار کی ایک ضرب اور لگائی ۔ انہوں نے بیان کیا کہ اگر چہ میں اسے زخمی تو بہت کر چکا تھا لیکن وہ ابھی مرا نہیں تھا ۔ اس لیے میں نے تلوار کی نوک اس کے پیٹ پر رکھ کر دبائی جو اس کی پیٹھ تک پہنچ گئی ۔ مجھے اب یقین ہو گیا کہ میں اسے قتل کر چکا ہوں ۔ چنانچہ میں نے دروازہ ایک ایک کرکے کھولنے شروع کئے ۔ آخر میں ایک زینے پر پہنچا ۔ میں یہ سمجھا کہ زمین تک میں پہنچ چکا ہوں ( لیکن ابھی میں پہنچا نہ تھا ) اس لیے میں نے اس پر پاؤں رکھ دیا اور نیچے گرپڑا ۔ چاندنی رات تھی ۔ اس طرح گر پڑنے سے میری پنڈلی ٹوٹ گئی ۔ میں نے اُسے اپنے عمامہ سے باندھ لیا اور آکر دروازے پر بیٹھ گیا ۔ میں نے یہ ارادہ کر لیا تھا کہ یہاں سے اس وقت تک نہیں جاؤںگا جب تک یہ نہ معلوم کرلوں کہ آیا میں اسے قتل کر چکا ہوں یا نہیں ؟ جب مرغ نے آوازدی تو اسی وقت قلعہ کی فصیل پر ایک پکارنے والے نے کھڑے ہوکر پکارا کہ اہل حجاز کے تاجر ابو رافع کی موت کا اعلان کرتا ہوں ۔ میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ چلنے کی جلدی کرو ۔ اللہ تعالیٰ نے ابو رافع کو قتل کرادیا ۔ چنانچہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو اس کی اطلاع دی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنا پاؤں پھیلاؤ میں نے پاؤں پھیلایا تو آپ نے اس پر اپنا دست مبارک پھیرا اور پاؤں اتنا اچھا ہو گیا جیسے کبھی اس میں مجھ کو کوئی تکلیف ہوئی نہ تھی ۔