‌صحيح البخاري - حدیث 4037

كِتَابُ المَغَازِي بَابُ قَتْلِ كَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ صحيح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ عَمْرٌو سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لِكَعْبِ بْنِ الْأَشْرَفِ فَإِنَّهُ قَدْ آذَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَامَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتُحِبُّ أَنْ أَقْتُلَهُ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَأْذَنْ لِي أَنْ أَقُولَ شَيْئًا قَالَ قُلْ فَأَتَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ فَقَالَ إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ قَدْ سَأَلَنَا صَدَقَةً وَإِنَّهُ قَدْ عَنَّانَا وَإِنِّي قَدْ أَتَيْتُكَ أَسْتَسْلِفُكَ قَالَ وَأَيْضًا وَاللَّهِ لَتَمَلُّنَّهُ قَالَ إِنَّا قَدْ اتَّبَعْنَاهُ فَلَا نُحِبُّ أَنْ نَدَعَهُ حَتَّى نَنْظُرَ إِلَى أَيِّ شَيْءٍ يَصِيرُ شَأْنُهُ وَقَدْ أَرَدْنَا أَنْ تُسْلِفَنَا وَسْقًا أَوْ وَسْقَيْنِ و حَدَّثَنَا عَمْرٌو غَيْرَ مَرَّةٍ فَلَمْ يَذْكُرْ وَسْقًا أَوْ وَسْقَيْنِ أَوْ فَقُلْتُ لَهُ فِيهِ وَسْقًا أَوْ وَسْقَيْنِ فَقَالَ أُرَى فِيهِ وَسْقًا أَوْ وَسْقَيْنِ فَقَالَ نَعَمِ ارْهَنُونِي قَالُوا أَيَّ شَيْءٍ تُرِيدُ قَالَ ارْهَنُونِي نِسَاءَكُمْ قَالُوا كَيْفَ نَرْهَنُكَ نِسَاءَنَا وَأَنْتَ أَجْمَلُ الْعَرَبِ قَالَ فَارْهَنُونِي أَبْنَاءَكُمْ قَالُوا كَيْفَ نَرْهَنُكَ أَبْنَاءَنَا فَيُسَبُّ أَحَدُهُمْ فَيُقَالُ رُهِنَ بِوَسْقٍ أَوْ وَسْقَيْنِ هَذَا عَارٌ عَلَيْنَا وَلَكِنَّا نَرْهَنُكَ اللَّأْمَةَ قَالَ سُفْيَانُ يَعْنِي السِّلَاحَ فَوَاعَدَهُ أَنْ يَأْتِيَهُ فَجَاءَهُ لَيْلًا وَمَعَهُ أَبُو نَائِلَةَ وَهُوَ أَخُو كَعْبٍ مِنْ الرَّضَاعَةِ فَدَعَاهُمْ إِلَى الْحِصْنِ فَنَزَلَ إِلَيْهِمْ فَقَالَتْ لَهُ امْرَأَتُهُ أَيْنَ تَخْرُجُ هَذِهِ السَّاعَةَ فَقَالَ إِنَّمَا هُوَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ وَأَخِي أَبُو نَائِلَةَ وَقَالَ غَيْرُ عَمْرٍو قَالَتْ أَسْمَعُ صَوْتًا كَأَنَّهُ يَقْطُرُ مِنْهُ الدَّمُ قَالَ إِنَّمَا هُوَ أَخِي مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ وَرَضِيعِي أَبُو نَائِلَةَ إِنَّ الْكَرِيمَ لَوْ دُعِيَ إِلَى طَعْنَةٍ بِلَيْلٍ لَأَجَابَ قَالَ وَيُدْخِلُ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ مَعَهُ رَجُلَيْنِ قِيلَ لِسُفْيَانَ سَمَّاهُمْ عَمْرٌو قَالَ سَمَّى بَعْضَهُمْ قَالَ عَمْرٌو جَاءَ مَعَهُ بِرَجُلَيْنِ وَقَالَ غَيْرُ عَمْرٍو أَبُو عَبْسِ بْنُ جَبْرٍ وَالْحَارِثُ بْنُ أَوْسٍ وَعَبَّادُ بْنُ بِشْرٍ قَالَ عَمْرٌو جَاءَ مَعَهُ بِرَجُلَيْنِ فَقَالَ إِذَا مَا جَاءَ فَإِنِّي قَائِلٌ بِشَعَرِهِ فَأَشَمُّهُ فَإِذَا رَأَيْتُمُونِي اسْتَمْكَنْتُ مِنْ رَأْسِهِ فَدُونَكُمْ فَاضْرِبُوهُ وَقَالَ مَرَّةً ثُمَّ أُشِمُّكُمْ فَنَزَلَ إِلَيْهِمْ مُتَوَشِّحًا وَهُوَ يَنْفَحُ مِنْهُ رِيحُ الطِّيبِ فَقَالَ مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ رِيحًا أَيْ أَطْيَبَ وَقَالَ غَيْرُ عَمْرٍو قَالَ عِنْدِي أَعْطَرُ نِسَاءِ الْعَرَبِ وَأَكْمَلُ الْعَرَبِ قَالَ عَمْرٌو فَقَالَ أَتَأْذَنُ لِي أَنْ أَشُمَّ رَأْسَكَ قَالَ نَعَمْ فَشَمَّهُ ثُمَّ أَشَمَّ أَصْحَابَهُ ثُمَّ قَالَ أَتَأْذَنُ لِي قَالَ نَعَمْ فَلَمَّا اسْتَمْكَنَ مِنْهُ قَالَ دُونَكُمْ فَقَتَلُوهُ ثُمَّ أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوهُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4037

کتاب: غزوات کے بیان میں باب: کعب بن اشرف یہودی کے قتل کا قصہ ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے کہا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا کہ میں نے حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے سنا ، وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کعب بن اشرف کا کا م کون تمام کرے گا ؟ وہ اللہ اور اس کے رسول کو بہت ستا رہا ہے ۔ اس پر محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا آپ اجازت دیں گے کہ میں اسے قتل کر آؤں ؟ آ پ نے فرمایا ، ہاں مجھ کو یہ پسند ہے ۔ انہوں نے عرض کیا ، پھر آپ مجھے اجازت عنایت فرمائیں کہ میں اس سے کچھ باتیں کہوں آپ نے انہیں اجازت دے دی ۔ اب محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کعب بن اشرف کے پاس آئے اور اس سے کہا ، یہ شخص ( اشارہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تھا ) ہم سے صدقہ مانگتا رہتا ہے اور اس نے ہمیں تھکا مارا ہے ۔ اس لیے میں تم سے قرض لینے آیا ہوں ۔ اس پر کعب نے کہا ، ابھی آگے دیکھنا ، خدا کی قسم ! بالکل اکتا جاؤ گے ۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا ، چونکہ ہم نے بھی اب ان کی اتباع کرلی ہے ۔ اس لیے جب تک یہ نہ کھل جائے کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے ، انہیں چھوڑنا بھی مناسب نہیں ۔ تم سے ایک وسق یا ( راوی نے بیان کیا کہ ) دو وسق غلہ قرض لینے آیا ہوں ۔ اور ہم سے عمرو بن دینار نے یہ حدیث کئی دفعہ بیان کی لیکن ایک وسق یا دو وسق غلے کا کوئی ذکر نہیں کیا ۔ میں نے ان سے کہا کہ حدیث میں ایک یا دو وسق کا ذکر ہے ؟ انہوں نے کہاکہ میرا بھی خیال ہے کہ حدیث میں ایک یا دو وسق کا ذکر آیا ہے ۔ کعب بن اشرف نے کہا ، ہاں ، میرے پاس کچھ گروی رکھ دو ۔ انہوں نے پوچھا ، گروی میں تم کیا چاہتے ہو ؟ اس نے کہا ، اپنی عورتوں کو رکھ دو ۔ انہوں نے کہا کہ تم عرب کے بہت خوبصورت مرد ہو ۔ ہم تمہارے پاس اپنی عورتیں کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں ۔ اس نے کہا ، پھر اپنے بچوں کو گروی رکھ دو ۔ انہوں نے کہا ، ہم بچوں کو کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں ۔ کل انہیں اسی پر گالیاں دی جائیں گی کہ ایک یا دو وسق غلے پر اسے رہن رکھ دیا گیا تھا ، یہ تو بڑی بے غیرتی ہوگی ۔ البتہ ہم تمہارے پاس اپنے ” لامہ “ گروی رکھ سکتے ہیں ۔ سفیان نے کہا کہ مراد اس سے ہتھیار تھے ۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اس سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا اور رات کے وقت اس کے یہاں آئے ۔ ان کے ساتھ ابو نائلہ بھی موجود تھے وہ کعب بن اشرف کے رضاعی بھائی تھے ۔ پھر اس کے قلعہ کے پاس جاکر انہوں نے آواز دی ۔ وہ باہر آنے لگا تو اس کی بیوی نے کہا کہ اس وقت ( اتنی رات گئے ) کہاں باہر جارہے ہو ؟ اس نے کہا ، وہ تو محمد بن مسلمہ اور میرا بھائی ابو نائلہ ہے ۔ عمرو کے سوا ( دوسرے راوی ) نے بیان کیا کہ اس کی بیوی نے اس سے کہا تھا کہ مجھے تو یہ آواز ایسی لگتی ہے جیسے اس سے خون ٹپک رہا ہو ۔ کعب نے جواب دیا کہ میرے بھائی محمد بن مسلمہ اور میرے رضاعی بھائی ابو نائلہ ہیں ۔ شریف کو اگر رات میں بھی نیزہ بازی کے لیے بلایا جائے تو وہ نکل پڑتا ہے ۔ راوی نے بیان کیا کہ جب محمد بن مسلمہ اندر گئے تو ان کے ساتھ دو آدمی اور تھے ۔ سفیان سے پوچھا گیا کہ کیا عمرو بن دینار نے ان کے نام بھی لیے تھے ؟ انہوں نے بتایا کہ بعض کا نام لیا تھا ۔ عمرو نے بیان کیا کہ وہ آئے تو ان کے ساتھ دو آدمی اور تھے اور عمرو بن دینار کے سوا ( راوی نے ) ابو عبس بن جبر ، حارث بن اوس اور عباد بن بشر نام بتائے تھے ۔ عمرو نے بیان کیا کہ وہ اپنے ساتھ دو آدمیوں کو لا ئے تھے اور انہیں یہ ہدایت کی تھی کہ جب کعب آئے تو میں اس کے ( سر کے ) بال ہاتھ میں لے لوں گا اور اسے سونگھنے لگوں گا ۔ جب تمہیں اندازہ ہو جا ئے کہ میں نے اس کا سر پوری طرح اپنے قبضہ میں لے لیا ہے تو پھر تم تیار ہوجانا اور اسے قتل کر ڈالنا ۔ عمرو نے ایک مرتبہ بیان کیا کہ پھر میں اس کا سر سونگھوں گا ۔ آخر کعب چادر لپیٹے ہوئے باہر آیا ۔ اس کے جسم سے خوشبو پھوٹی پڑتی تھی ۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا ، آج سے زیادہ عمدہ خوشبو میں نے کبھی نہیں سونگھی تھی ۔ عمرو کے سوا ( دوسرے راوی ) نے بیان کیا کہ کعب اس پر بولا ، میرے پاس عرب کی وہ عورت ہے جو ہر وقت عطر میں بسی رہتی ہے اور حسن وجمال میں بھی اس کی کوئی نظیر نہیں ۔ عمرو نے بیان کیا کہ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا ، کیا تمہارے سر کو سونگھنے کی مجھے اجازت ہے ؟ اس نے کہا ، سونگھ سکتے ہو ۔ راوی نے بیان کیا کہ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اس کا سر سونگھا اور ان کے بعد ان کے ساتھیوں نے بھی سونگھا ۔ پھر انہوں نے کہا ، کیا دوبارہ سونگھنے کی اجازت ہے ؟ اس نے اس مرتبہ بھی اجازت دے دی ۔ پھر جب محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اسے پوری طرح اپنے قابو میں کر لیا تو اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا کہ تیار ہو جاؤ ۔ چنانچہ انہوں نے اسے قتل کردیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اس کی اطلا ع دی ۔
تشریح : کعب بن اشرف کا کام تمام کرنے والے گروہ کے سردار حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ تھے۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ تو کرلیا مگر کئی دن تک متفکر رہے ۔ پھر ابو نائلہ کے پاس آئے جو کعب کارضاعی بھائی تھا اور عباد بن بشر اور حارث بن اوس ۔ ابو عبس بن جبر کو بھی مشورہ میں شریک کیا اور یہ سب مل کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا کہ ہم کو اجازت دیجئے کہ ہم جو مناسب سمجھیں کعب سے ویسی باتیں کریں ۔ آپ نے ان کو بطور مصلحت اجازت مرحمت فرمائی اور رات کے وقت جب یہ لوگ مدینہ سے چلے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بقیع تک ان کے ساتھ آئے ۔ چاندنی رات تھی ۔ آپ نے فرمایا جاؤ اللہ تمہاری مدد کرے۔ کعب بن اشرف مدینہ کا بہت بڑا متعصب یہودی تھا اور بڑا مال دار آدمی تھا ۔ اسلام سے اسے سخت نفرت اور عداوت تھی ۔ قریش کو مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے ابھارتا تھا اور ہمیشہ اس ٹوہ میں لگا رہتا تھاکہ کسی نہ کسی طرح دھوکے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرا دے ۔ فتح الباری میں ایک دعوت کا ذکر ہے جس میں اس ظالم نے اس غرض فاسد کے تحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مدعو کیا تھا مگر حضرت جبرئیل علیہ السلام، نے اس کی نیت بد سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کردیا اور آپ بال بال بچ گئے ۔ اس کی ان جملہ حرکات بد کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ختم کر نے کے لیے صحابہ کے سامنے اپنا خیال ظاہر فرمایا جس پر محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ نے آمادگی کا اظہار کیا۔ کعب بن اشرف محمد بن مسلمہ کا ماموں بھی ہوتا تھا ۔ مگر اسلام اور پیغمبر اسلام علیہ الصلوۃ والسلام کا رشتہ دنیاوی سب رشتوں سے بلند وبالا تھا ۔ بہر حل اللہ تعالی نے اس ظالم کو بایں طور ختم کرایا جس سے فتنوں کا دروازہ بند ہوکر امن قائم ہوگیا اور بہت سے لوگ جنگ کی صورت پیش آنے اور قتل ہونے سے بچ گئے ۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں : روی ابو داود والترمذی من طریق الزھری عن عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب بن مالک عن ابیہ ان کعب بن الاشرف کان شاعرا یھجو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ویحرض علیہ کفار قریش وکان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قدم المدینہ واھلھا اخلاط فاراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم استصلاحھم وکان الیہود والمشرکون یوذون المسلمین اشد الاذی فامر اللہ رسولہ والمسلمین بالصبر فلما ابی بن کعب ان ینزع عن اذاہ امر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن معاذ ان یبعث رھطا لیقتلوہ وذکر ابن سعدان قتلہ کان فی ربیع الاول من السنۃ الثالثۃ ( فتح الباری ) خلاصہ یہ کہ کعب بن اشرف شاعر تھا جو شعروں میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتا اور کفار قریش کو آپ کے اوپر حملہ کرنے کی ترغیب دلاتا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے وہاں کے باشندے آپس میں خلط ملط تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اصلاح وسدھار کا بیڑا اٹھایا ۔ یہودی اور مشرکین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ترین ایذائیں پہنچانے کے درپے رہتے ۔ پس اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو صبر کا حکم فرمایا ۔ جب کعب بن اشرف کی شرارتیں حدسے زیاد ہ بڑھنے لگیں اور ایذا رسانی سے باز نہ آیا تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ ایک جماعت کو بھیجیں جو اس کا خاتمہ کرے ۔ ابن سعد نے کہا کہ کعب بن اشرف کا قتل3ھ میں ہوا ۔ کعب بن اشرف کا کام تمام کرنے والے گروہ کے سردار حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ تھے۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ تو کرلیا مگر کئی دن تک متفکر رہے ۔ پھر ابو نائلہ کے پاس آئے جو کعب کارضاعی بھائی تھا اور عباد بن بشر اور حارث بن اوس ۔ ابو عبس بن جبر کو بھی مشورہ میں شریک کیا اور یہ سب مل کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا کہ ہم کو اجازت دیجئے کہ ہم جو مناسب سمجھیں کعب سے ویسی باتیں کریں ۔ آپ نے ان کو بطور مصلحت اجازت مرحمت فرمائی اور رات کے وقت جب یہ لوگ مدینہ سے چلے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بقیع تک ان کے ساتھ آئے ۔ چاندنی رات تھی ۔ آپ نے فرمایا جاؤ اللہ تمہاری مدد کرے۔ کعب بن اشرف مدینہ کا بہت بڑا متعصب یہودی تھا اور بڑا مال دار آدمی تھا ۔ اسلام سے اسے سخت نفرت اور عداوت تھی ۔ قریش کو مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے ابھارتا تھا اور ہمیشہ اس ٹوہ میں لگا رہتا تھاکہ کسی نہ کسی طرح دھوکے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرا دے ۔ فتح الباری میں ایک دعوت کا ذکر ہے جس میں اس ظالم نے اس غرض فاسد کے تحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مدعو کیا تھا مگر حضرت جبرئیل علیہ السلام، نے اس کی نیت بد سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کردیا اور آپ بال بال بچ گئے ۔ اس کی ان جملہ حرکات بد کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ختم کر نے کے لیے صحابہ کے سامنے اپنا خیال ظاہر فرمایا جس پر محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ نے آمادگی کا اظہار کیا۔ کعب بن اشرف محمد بن مسلمہ کا ماموں بھی ہوتا تھا ۔ مگر اسلام اور پیغمبر اسلام علیہ الصلوۃ والسلام کا رشتہ دنیاوی سب رشتوں سے بلند وبالا تھا ۔ بہر حل اللہ تعالی نے اس ظالم کو بایں طور ختم کرایا جس سے فتنوں کا دروازہ بند ہوکر امن قائم ہوگیا اور بہت سے لوگ جنگ کی صورت پیش آنے اور قتل ہونے سے بچ گئے ۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں : روی ابو داود والترمذی من طریق الزھری عن عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب بن مالک عن ابیہ ان کعب بن الاشرف کان شاعرا یھجو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ویحرض علیہ کفار قریش وکان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قدم المدینہ واھلھا اخلاط فاراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم استصلاحھم وکان الیہود والمشرکون یوذون المسلمین اشد الاذی فامر اللہ رسولہ والمسلمین بالصبر فلما ابی بن کعب ان ینزع عن اذاہ امر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن معاذ ان یبعث رھطا لیقتلوہ وذکر ابن سعدان قتلہ کان فی ربیع الاول من السنۃ الثالثۃ ( فتح الباری ) خلاصہ یہ کہ کعب بن اشرف شاعر تھا جو شعروں میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتا اور کفار قریش کو آپ کے اوپر حملہ کرنے کی ترغیب دلاتا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے وہاں کے باشندے آپس میں خلط ملط تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اصلاح وسدھار کا بیڑا اٹھایا ۔ یہودی اور مشرکین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ترین ایذائیں پہنچانے کے درپے رہتے ۔ پس اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو صبر کا حکم فرمایا ۔ جب کعب بن اشرف کی شرارتیں حدسے زیاد ہ بڑھنے لگیں اور ایذا رسانی سے باز نہ آیا تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ ایک جماعت کو بھیجیں جو اس کا خاتمہ کرے ۔ ابن سعد نے کہا کہ کعب بن اشرف کا قتل3ھ میں ہوا ۔