‌صحيح البخاري - حدیث 4034

كِتَابُ المَغَازِي بَابُ حَدِيثِ بَنِي النَّضِيرِ صحيح قال فحدثت هذا الحديث، عروة بن الزبير فقال صدق مالك بن أوس، أنا سمعت عائشة ـ رضى الله عنها ـ زوج النبي صلى الله عليه وسلم تقول أرسل أزواج النبي صلى الله عليه وسلم عثمان إلى أبي بكر يسألنه ثمنهن مما أفاء الله على رسوله صلى الله عليه وسلم، فكنت أنا أردهن، فقلت لهن ألا تتقين الله، ألم تعلمن أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقول ‏ ‏ لا نورث، ما تركنا صدقة ـ يريد بذلك نفسه ـ إنما يأكل آل محمد صلى الله عليه وسلم في هذا المال ‏ ‏‏.‏ فانتهى أزواج النبي صلى الله عليه وسلم إلى ما أخبرتهن‏.‏ قال فكانت هذه الصدقة بيد علي، منعها علي عباسا فغلبه عليها، ثم كان بيد حسن بن علي، ثم بيد حسين بن علي، ثم بيد علي بن حسين وحسن بن حسن، كلاهما كانا يتداولانها، ثم بيد زيد بن حسن، وهى صدقة رسول الله صلى الله عليه وسلم حقا‏.‏

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4034

کتاب: غزوات کے بیان میں باب: بنو نضیر کے یہودیوں کے واقعہ کا بیان زہری نے بیان کیا کہ پھر میں نے اس حدیث کا تذکرہ عروہ بن زبیر سے کیا تو انہوں نے کہا کہ مالک بن اوس نے یہ روایت تم سے صحیح بیان کی ہے ۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک بیوی عائشہ رضی اللہ عنہاسے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج نے عثمان رضی اللہ عنہ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجااور ان سے درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ نے جو فئے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تھی اس میں سے ان کے حصے دیئے جائےں ، لیکن میں نے انہیں روکا اور ان سے کہا تم خدا سے نہیںڈرتی کی حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے خود نہیں فرمایا تھا کہ ہمارا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا ؟ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ اس ارشاد میں خود اپنی ذات کی طرف تھا ۔ البتہ آل محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اس جائیداد میں سے تا زندگی ( ان کی ضروریات کے لیے ) ملتا رہے گا ۔ جب میں نے ازواج مطہرات کو یہ حدیث سنائی تو انہوں نے بھی اپنا خیال بدل دیا ۔ عروہ نے کہا کہ یہی وہ صدقہ ہے جس کا انتظام پہلے علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا ۔ علی رضی اللہ عنہ نے عباس رضی اللہ عنہ کو اس کے انتظام میں شریک نہیں کیا تھا بلکہ خود اس کا انتظام کرتے تھے ( اور جس طرح آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم ابوبکررضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے اسے خرچ کیا تھا ، اسی طرح انہیں مصارف میں وہ بھی خرچ کرتے تھے ) اس کے بعد وہ صدقہ حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے انتظام میں آگیا تھا ۔ پھر حسین بن علی رضی اللہ عنہ کے انتظام میں رہا ۔ پھر جناب علی بن حسین اور حسن بن حسن کے انتظام میں آگیا تھا اور یہ حق ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صدقہ تھا ۔
تشریح : اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وراثت نبوی کے بارے میں فرمان نبوی پر پورے طور پر عمل کیا کہ اسے تقسیم نہیں ہونے دیا ۔ جن مصارف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے صرف فرمایا یہ حضرات بھی ان ہی مصارف میں اسے صرف فرماتے رہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی اس بارے میں اختلاف نہ تھا ۔ اگر کچھ اختلاف بھی تھا تو صرف اس بارے میں کہ اس صدقہ کی نگرانی کون کرے ؟ اس کا متولی کون ہو؟ اس بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تفصیل سے ان حضرات کو معاملہ سمجھا کر اس ترکہ کو ان کے حوالے کردیا ۔ رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ۔ اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وراثت نبوی کے بارے میں فرمان نبوی پر پورے طور پر عمل کیا کہ اسے تقسیم نہیں ہونے دیا ۔ جن مصارف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے صرف فرمایا یہ حضرات بھی ان ہی مصارف میں اسے صرف فرماتے رہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی اس بارے میں اختلاف نہ تھا ۔ اگر کچھ اختلاف بھی تھا تو صرف اس بارے میں کہ اس صدقہ کی نگرانی کون کرے ؟ اس کا متولی کون ہو؟ اس بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تفصیل سے ان حضرات کو معاملہ سمجھا کر اس ترکہ کو ان کے حوالے کردیا ۔ رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ۔