‌صحيح البخاري - حدیث 4033

كِتَابُ المَغَازِي بَابُ حَدِيثِ بَنِي النَّضِيرِ صحيح حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني مالك بن أوس بن الحدثان النصري، أن عمر بن الخطاب ـ رضى الله عنه ـ دعاه إذ جاءه حاجبه يرفا فقال هل لك في عثمان، وعبد الرحمن، والزبير وسعد يستأذنون فقال نعم، فأدخلهم‏.‏ فلبث قليلا، ثم جاء فقال هل لك في عباس وعلي يستأذنان قال نعم‏.‏ فلما دخلا قال عباس يا أمير المؤمنين، اقض بيني وبين هذا، وهما يختصمان في الذي أفاء الله على رسوله صلى الله عليه وسلم من بني النضير، فاستب علي وعباس، فقال الرهط يا أمير المؤمنين، اقض بينهما وأرح أحدهما من الآخر‏.‏ فقال عمر اتئدوا، أنشدكم بالله الذي بإذنه تقوم السماء والأرض، هل تعلمون أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ ‏ لا نورث، ما تركنا صدقة ‏ ‏‏.‏ يريد بذلك نفسه‏.‏ قالوا قد قال ذلك‏.‏ فأقبل عمر على عباس وعلي فقال أنشدكما بالله هل تعلمان أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد قال ذلك قالا نعم‏.‏ قال فإني أحدثكم عن هذا الأمر، إن الله سبحانه كان خص رسوله صلى الله عليه وسلم في هذا الفىء بشىء لم يعطه أحدا غيره فقال جل ذكره ‏{‏وما أفاء الله على رسوله منهم فما أوجفتم عليه من خيل ولا ركاب‏}‏ إلى قوله ‏{‏قدير‏}‏ فكانت هذه خالصة لرسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم والله ما احتازها دونكم، ولا استأثرها عليكم، لقد أعطاكموها وقسمها فيكم، حتى بقي هذا المال منها، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينفق على أهله نفقة سنتهم من هذا المال، ثم يأخذ ما بقي فيجعله مجعل مال الله، فعمل ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم حياته، ثم توفي النبي صلى الله عليه وسلم فقال أبو بكر فأنا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏ فقبضه أبو بكر، فعمل فيه بما عمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنتم حينئذ‏.‏ فأقبل على علي وعباس وقال تذكران أن أبا بكر عمل فيه كما تقولان، والله يعلم إنه فيه لصادق بار راشد تابع للحق ثم توفى الله أبا بكر فقلت أنا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر‏.‏ فقبضته سنتين من إمارتي أعمل فيه بما عمل رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر، والله يعلم أني فيه صادق بار راشد تابع للحق، ثم جئتماني كلاكما وكلمتكما واحدة وأمركما جميع، فجئتني ـ يعني عباسا ـ فقلت لكما إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏ ‏ لا نورث، ما تركنا صدقة ‏ ‏‏.‏ فلما بدا لي أن أدفعه إليكما قلت إن شئتما دفعته إليكما على أن عليكما عهد الله وميثاقه لتعملان فيه بما عمل فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر، وما عملت فيه مذ وليت، وإلا فلا تكلماني، فقلتما ادفعه إلينا بذلك‏.‏ فدفعته إليكما، أفتلتمسان مني قضاء غير ذلك فوالله الذي بإذنه تقوم السماء والأرض لا أقضي فيه بقضاء غير ذلك حتى تقوم الساعة، فإن عجزتما عنه، فادفعا إلى فأنا أكفيكماه‏.‏

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4033

کتاب: غزوات کے بیان میں باب: بنو نضیر کے یہودیوں کے واقعہ کا بیان ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ، ان سے زہری نے بیان کیا ، انہیں مالک بن اوس بن حدثان نصری نے خبر دی کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں بلایا تھا ۔ ( وہ بھی امیرالمومنین ) کی خدمت میں موجود تھے کہ امیر المومنین کے چوکیدار یرفاءآئے اور عرض کیا کہ عثمان بن عفان اور عبد الرحمن بن عوف ، زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم اندر آنا چاہتے ہیں ۔ کیا آپ کی طرف سے انہیں اجازت ہے ؟ امیرالمومنین نے فرمایا کہ ہاں ، انہیں اندر بلالو ۔ تھوڑی دیر بعد یرفاءپھر آئے اور عرض کیا حضرت عباس اور علی رضی اللہ عنہما بھی اجازت چاہتے ہیں کیا انہیں اندر آنے کی اجازت ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں ، جب یہ بھی دونوں بزرگ اندر تشریف لے آئے تو عباس رضی اللہ عنہ نے کہا ، امیر المومنین ! میرااور ان ( علی رضی اللہ عنہ ) کا فیصلہ کردیجئے ۔ وہ دونوں اس جائیداد کے بارے میں جھگڑرہے تھے جواللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مال بنو نضیر سے فئے کے طور پردی تھی ۔ اس موقع پر علی اور عباس رضی اللہ عنہما نے ایک دوسرے کو سخت سست کہا اور ایک دوسرے پر تنقیدکی تو حاضرین بولے ، امیرالمومنین ! آپ ان دونوں بزرگوں کا فیصلہ کردیں تاکہ دونوں میں کوئی جھگڑانہ رہے ۔ عمررضی اللہ عنہ نے کہا ، جلدی نہ کیجئے ۔ میں آپ لوگوں سے اس اللہ کا واسطہ دے کرپوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان وزمین قائم ہیں ، کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا کہ ہم انبیاءکی وراثت تقسیم نہیں ہوتی جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے اور اس سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی مراد خود اپنی ذات سے تھی ؟ حاضرین بولے کہ جی ہاں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا ۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ عباس اور علی رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا ، میں آپ دونوں سے بھی اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں ۔ کیا آپ کو بھی معلوم ہے کہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی ؟ ان دونوں بزرگوںنے بھی جواب ہاں میں دیا ۔ اس کے بعد عمررضی اللہ عنہ نے کہا ، پھر میں آپ لوگوں سے اس معاملہ پر گفتگو کرتا ہوں ۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مال فئے میں سے ( جوبنو نضیر سے ملا تھا ) آپ کو خاص طورپر عطا فرمادیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق فرمایا ہے کہ ” بنو نضیر کے مالوںسے جو اللہ نے اپنے رسول کو دیا ہے تو تم نے اس کے لیے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے ۔ ( یعنی جنگ نہیں کی ) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ” قدیر “ تک ۔ تو یہ مال خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھا لیکن خداکی قسم کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں نظر انداز کرکے اپنے لیے اسے مخصوص نہیں فرمایا تھا نہ تم پر اپنی ذات کو ترجیح دی تھی ۔ پہلے اس مال میں سے تمہیں دیا اور تم میں اس کی تقسیم کی اور آخر اس فئے میں سے یہ جائیداد بچ گئی ۔ پس آپ اپنی ازواج مطہرات کا سالانہ خرچ بھی اسی میں سے نکالتے تھے اور جو کچھ اس میں سے باقی بچتا اسے آپ اللہ تعالیٰ کے مصارف میں خرچ کرتے تھے ۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں یہ جائیداد انہی مصارف میں خرچ کی ۔ پھر جب آپ کی وفات ہوگئی تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ بنادیا گیا ہے ۔ اس لیے انہوں نے اسے اپنے قبضہ میں لے لیا اور اسے انہی مصارف میں خرچ کرتے رہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کیا کرتے تھے اور آپ لوگ یہیں موجود تھے ۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ۔ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی وہی طریقہ اختیار کیا ، جیسا کہ آپ لوگوں کو بھی اس کا اقرار ہے اور اللہ کی قسم کہ وہ اپنے اس طرزعمل میں سچے ، مخلص ، صحیح راستے پر اور حق کی پیروی کر نے و الے تھے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکررضی اللہ عنہ کو بھی اٹھالیا ، اس لیے میں نے کہا کہ مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خلیفہ بنایا گیاہے ۔ چنانچہ میں اس جائیداد پر اپنی خلافت کے دو سالوں سے قابض ہوں اور اسے انہیں مصارف میں صرف کرتا ہوں جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں بھی اپنے طرز عمل میں سچا ، مخلص ، صحیح راستے پر اور حق کی پیروی کرنے والا ہوں ۔ پھر آپ دونوں میرے پاس آئے ہیں ۔ آپ دونوں ایک ہی ہیں اور آپ کا معاملہ بھی ایک ہے ۔ پھر آپ میرے پاس آئے ۔ آپ کی مراد عباس رضی اللہ عنہ سے تھی ۔ تو میں نے آپ دونوں کے سامنے یہ بات صاف کہہ دی تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما گئے تھے کہ ” ہمارا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا ۔ ہم جو کچھ چھوڑجائیں وہ صدقہ ہے “ پھر جب میرے دل میں آیا کہ وہ جائیداد بطور انتظام میں آپ دونوں کو دے دوں تو میں نے آپ سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں یہ جائیدادآپ کو دے سکتا ہوں ۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کئے ہوئے عہد کی تمام ذمہ داریوں کو آپ پورا کریں ۔ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اور خود میں نے جب سے میں خلیفہ بنا ہوں ۔ اس جائیداد کے معاملہ میں کس طرز عمل کو اختیار کیا ہوا ہے ۔ اگر یہ شرط آپ کو منظور نہ ہو تو پھر مجھ سے اس کے بارے میں آپ لوگ بات نہ کریں ۔ آپ لوگوں نے اس پر کہا کہ ٹھیک ہے ۔ آپ اسی شرط پر وہ جائیداد ہمارے حوالے کردیں ۔ چنانچہ میں نے اسے آپ لوگوں کے حوالے کردیا ۔ کیا آپ حضرات اس کے سوا کوئی اور فیصلہ اس سلسلے میں مجھ سے کروانا چاہتے ہیں ؟ اس اللہ کی قسم ! جس کے حکم سے آسمان وزمین قائم ہیں ، قیا مت تک میں اس کے سوا کوئی اور فیصلہ نہیں کر سکتا ۔ اگر آپ لوگ ( شرط کے مطابق اس کے انتظام سے ) عاجز ہیں تو وہ جائیداد مجھے واپس کردیں ۔ میں خود اس کا انتظام کروں گا ۔