‌صحيح البخاري - حدیث 4032

كِتَابُ المَغَازِي بَابُ حَدِيثِ بَنِي النَّضِيرِ صحيح حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ أَخْبَرَنَا حَبَّانُ أَخْبَرَنَا جُوَيْرِيَةُ بْنُ أَسْمَاءَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَرَّقَ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ قَالَ وَلَهَا يَقُولُ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ وَهَانَ عَلَى سَرَاةِ بَنِي لُؤَيٍّ حَرِيقٌ بِالْبُوَيْرَةِ مُسْتَطِيرُ قَالَ فَأَجَابَهُ أَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ أَدَامَ اللَّهُ ذَلِكَ مِنْ صَنِيعٍ وَحَرَّقَ فِي نَوَاحِيهَا السَّعِيرُ سَتَعْلَمُ أَيُّنَا مِنْهَا بِنُزْهٍ وَتَعْلَمُ أَيُّ أَرْضَيْنَا تَضِيرُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4032

کتاب: غزوات کے بیان میں باب: بنو نضیر کے یہودیوں کے واقعہ کا بیان ہم سے اسحاق نے بیان کیا ، کہا ہم کو حبان نے خبر دی ، انہیں جویریہ بن اسماءنے ، انہیں نافع نے ، انہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے باغات جلوا دیئے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اسی کے متعلق یہ شعر کہا تھا ( ترجمہ ) ” بنو لوی ( قریش ) کے سرداروں نے بڑی آسانی کے ساتھ برداشت کرلیا ۔ مقام بویرہ میں اس آگ کو جو پھیل رہی تھی ۔ “ بیان کیاکہ پھر اس کا جواب ابو سفیان بن حارث نے ان اشعار میں دیا ۔ ” خدا کرے کہ مدینہ میں ہمیشہ یوں ہی آگ لگتی رہے اور اس کے اطراف میں یوں ہی شعلے اٹھتے رہیں ۔ تمہیں جلد ہی معلوم ہوجائے گا کہ ہم میں سے کون اس مقام بویرہ سے دور ہے اور تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس کی زمین کو نقصان پہنچتا ہے ۔
تشریح : بویرہ بنو نضیر کے باغ کو کہتے تھے جو مدینہ کے قریب واقع تھا ۔ بنی لوی قریش کے لوگوں کو کہتے ہیں ۔ ان میں اور بنی نضیر میں عہد و پیمان تھا ۔ حضرت حسان رضی اللہ عنہ کا مطلب قریش کی ہجو کرنا ہے ان کے دوستوں کے باغ جلتے رہے اور وہ قریش ان کی کچھ مدد نہ کر سکے ۔ جوابی اشعار میں ابو سفیان نے مسلمانوں کو بد دعا دی ۔ یعنی خدا کرے تمہارے شہر میں ہمیشہ چاروں طرف آگ جلتی رہے ۔ ابو سفیان کی بد دعا مردود ہو گئی اور الحمد للہ مدینہ منورہ آج بھی جنت کی فضا رکھتا ہے ۔ مولانا وحید الزماں نے ان اشعار کا اردو ترجمہ یوں منظوم کیا ہے ۔ حضرت حسان کے شعر کا ترجمہ : بنی لوی کے شریفوں پہ ہوگیا آساں لگی ہو آگ بویرہ میں سب طرف ویراں ابو سفیان بن حارث کے اشعار کا ترجمہ: خدا کرے کہ ہمیشہ رہے وہاں یہ حال مدینہ کے چاروں طرف رہے آتش سوزاں یہ جان لو گے تم اب عنقریب کون ہم میں رہے گا بچا کس کا ملک اٹھا ئے گا نقصان یہ ابو سفیان نے مسلمانوں کو اور ان کے شہر مدینہ کوبد دعا دی تھی جو مردود ہوگئی۔ بویرہ بنو نضیر کے باغ کو کہتے تھے جو مدینہ کے قریب واقع تھا ۔ بنی لوی قریش کے لوگوں کو کہتے ہیں ۔ ان میں اور بنی نضیر میں عہد و پیمان تھا ۔ حضرت حسان رضی اللہ عنہ کا مطلب قریش کی ہجو کرنا ہے ان کے دوستوں کے باغ جلتے رہے اور وہ قریش ان کی کچھ مدد نہ کر سکے ۔ جوابی اشعار میں ابو سفیان نے مسلمانوں کو بد دعا دی ۔ یعنی خدا کرے تمہارے شہر میں ہمیشہ چاروں طرف آگ جلتی رہے ۔ ابو سفیان کی بد دعا مردود ہو گئی اور الحمد للہ مدینہ منورہ آج بھی جنت کی فضا رکھتا ہے ۔ مولانا وحید الزماں نے ان اشعار کا اردو ترجمہ یوں منظوم کیا ہے ۔ حضرت حسان کے شعر کا ترجمہ : بنی لوی کے شریفوں پہ ہوگیا آساں لگی ہو آگ بویرہ میں سب طرف ویراں ابو سفیان بن حارث کے اشعار کا ترجمہ: خدا کرے کہ ہمیشہ رہے وہاں یہ حال مدینہ کے چاروں طرف رہے آتش سوزاں یہ جان لو گے تم اب عنقریب کون ہم میں رہے گا بچا کس کا ملک اٹھا ئے گا نقصان یہ ابو سفیان نے مسلمانوں کو اور ان کے شہر مدینہ کوبد دعا دی تھی جو مردود ہوگئی۔