‌صحيح البخاري - حدیث 4020

كِتَابُ المَغَازِي بَابٌ صحيح حَدَّثَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ حَدَّثَنَا أَنَسٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ بَدْرٍ مَنْ يَنْظُرُ مَا صَنَعَ أَبُو جَهْلٍ فَانْطَلَقَ ابْنُ مَسْعُودٍ فَوَجَدَهُ قَدْ ضَرَبَهُ ابْنَا عَفْرَاءَ حَتَّى بَرَدَ فَقَالَ آنْتَ أَبَا جَهْلٍ قَالَ ابْنُ عُلَيَّةَ قَالَ سُلَيْمَانُ هَكَذَا قَالَهَا أَنَسٌ قَالَ أَنْتَ أَبَا جَهْلٍ قَالَ وَهَلْ فَوْقَ رَجُلٍ قَتَلْتُمُوهُ قَالَ سُلَيْمَانُ أَوْ قَالَ قَتَلَهُ قَوْمُهُ قَالَ وَقَالَ أَبُو مِجْلَزٍ قَالَ أَبُو جَهْلٍ فَلَوْ غَيْرُ أَكَّارٍ قَتَلَنِي

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4020

کتاب: غزوات کے بیان میں باب مجھ سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابن علیہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے سلیمان تیمی نے بیان کیا ، کہا ہم سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کی لڑائی کے دن فرمایا ، کون دیکھ کر آئے گا کہ ابوجہل کے ساتھ کیاہوا ؟ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس کے لیے روانہ ہوئے اور دیکھا کہ عفراءکے دونوں بیٹوںنے اسے قتل کردیا ہے اور اس کی لاش ٹھنڈی ہونے والی ہے ۔ انہوں نے پوچھا ، ابو جہل تم ہی ہو ؟ ابن علیہ نے بیان کیا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے پوچھا تھا کہ تو ابوجہل ہے ؟ اس پر اس نے کہا ، کیا اس سے بھی بڑا کوئی ہوگاجسے تم نے آج قتل کردیا ہے ؟ سلیمان نے بیان کیا ، کہا کہ یا اس نے یوں کہا ، ” جسے اس کی قوم نے قتل کردیا ہے ؟ ( کیا اس سے بھی بڑا کوئی ہوگا ) کہا کہ ابو مجلز نے بیان کیا کہ ابو جہل نے کہا ، کاش ! ایک کسان کے سوا مجھے کسی اور نے مارا ہوتا ۔
تشریح : اس مردود کو یہ رنج ہوا کہ مدینہ کے کاشتکا روں کے ہاتھ سے کیوں مارا گیا ؟ کاش! کسی رئیس کے ہاتھ سے مارا جاتا ۔ یہ قومی اونچ نیچ کا تصور ابو جہل کے دماغ میں آخروقت تک سمایا رہا جو مسلمان آج ایسی قومی اونچ نیچ کے تصورات میں گرفتار ہیں ان کو سوچنا چاہیے کہ وہ ابو جہل کی خوئے بد میں گرفتار ہیں ۔ اسلام ایسے ہی غلط تصورات کو ختم کرنے آیا مگر صد افسوس کہ خود مسلمان بھی ایسے غلط تصورات میں گرفتار ہوگئے ۔ اکار کا ترجمہ مولانا وحید الزماں رحمۃ اللہ علیہ نے لفظ کمینے سے کیا ہے ۔ گویا ابو جہل نے کاشتکاروں کو لفظ کمینے سے یاد کیا ہے ۔ اس مردود کو یہ رنج ہوا کہ مدینہ کے کاشتکا روں کے ہاتھ سے کیوں مارا گیا ؟ کاش! کسی رئیس کے ہاتھ سے مارا جاتا ۔ یہ قومی اونچ نیچ کا تصور ابو جہل کے دماغ میں آخروقت تک سمایا رہا جو مسلمان آج ایسی قومی اونچ نیچ کے تصورات میں گرفتار ہیں ان کو سوچنا چاہیے کہ وہ ابو جہل کی خوئے بد میں گرفتار ہیں ۔ اسلام ایسے ہی غلط تصورات کو ختم کرنے آیا مگر صد افسوس کہ خود مسلمان بھی ایسے غلط تصورات میں گرفتار ہوگئے ۔ اکار کا ترجمہ مولانا وحید الزماں رحمۃ اللہ علیہ نے لفظ کمینے سے کیا ہے ۔ گویا ابو جہل نے کاشتکاروں کو لفظ کمینے سے یاد کیا ہے ۔