‌صحيح البخاري - حدیث 4018

كِتَابُ المَغَازِي بَابٌ صحيح حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُلَيْحٍ عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَنَّ رِجَالًا مِنْ الْأَنْصَارِ اسْتَأْذَنُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا ائْذَنْ لَنَا فَلْنَتْرُكْ لِابْنِ أُخْتِنَا عَبَّاسٍ فِدَاءَهُ قَالَ وَاللَّهِ لَا تَذَرُونَ مِنْهُ دِرْهَمًا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4018

کتاب: غزوات کے بیان میں باب مجھ سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا ، کہا ہم سے محمد بن فلیح نے بیان کیا ، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے کہ ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا اور ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انصار کے چند لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی اور عرض کیا کہ آپ ہمیں اجازت عطافرمائیں تو ہم اپنے بھانجے عباس رضی اللہ عنہ کا فدیہ معاف کردیں لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی قسم ! ان کے فدیہ سے ایک درہم بھی نہ چھوڑنا ۔
تشریح : حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محترم چچا قبول اسلام سے پہلے بدر کی لڑائی میں قید ہوکر آئے تھے وہ انصار کے بھانجے اس رشتہ سے ہوئے کہ ان کی دادی یعنی حضرت عبد المطلب کی والدہ ماجدہ بنو نجار کے قبیلے میں سے تھیں ۔ اسی رشتہ کی بناپر انصار نے ان کا فدیہ معاف کرنا چاہا ۔ مگر بہت سے مصالح کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ ان کا فدیہ پورے طور پر وصول کرو ۔ آپ نے ان سے یعنی عباس رضی اللہ عنہ سے یہ بھی فرمایا تھا کہ آپ نہ صرف اپنا بلکہ اپنے دونوں بھتیجوں عقیل اور نوفل اور اپنے حلیف عتبہ بن عمرو کا فدیہ بھی اداکریں کیونکہ آپ مالدار ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ میں تو مسلمان ہوں مگر مکہ کے مشرک زبردستی مجھ کو پکڑ لائے ہیں ۔ آپ نے فرمایا اللہ بہتر جانتا ہے اگر ایسا ہوا ہے تو اللہ تعالی آپ کے اس نقصان کی تلافی کردے گا ۔ ظاہر میں تو آپ ان مکہ والوں کے ساتھ ہو کر مسلمانوں سے لڑنے آئے ۔ کہتے ہیں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو کعب بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ نے پکڑا اور زور سے مشکیں کس دیں ۔ وہ اس تکلیف سے ہائے ہائے کرتے رہے ۔ ان کی آواز سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رات نیند نہیں آئی ۔ آخر صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان کی مشکیں ڈھیلی کردیں ۔ تب آپ آرام سے سوئے صبح کو انصار نے آپ کو مزید خوش کرنے کے لیے ان کا فدیہ بھی معاف کرنا چاہا اور کہا کہ ہم خود اپنے پاس سے ان کا فدیہ ادا کردیں گے لیکن یہ انصاف کے خلاف تھا اس لیے آپ نے منظور نہیں فرمایا ۔ اس حدیث سے باب کی مناسبت یہ ہے کہ اس میں کئی انصاری آدمیوں کا جنگ بدر میں شریک ہونا مذکور ہے ۔ ان کے نام مذکور نہیں ہے۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محترم چچا قبول اسلام سے پہلے بدر کی لڑائی میں قید ہوکر آئے تھے وہ انصار کے بھانجے اس رشتہ سے ہوئے کہ ان کی دادی یعنی حضرت عبد المطلب کی والدہ ماجدہ بنو نجار کے قبیلے میں سے تھیں ۔ اسی رشتہ کی بناپر انصار نے ان کا فدیہ معاف کرنا چاہا ۔ مگر بہت سے مصالح کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ ان کا فدیہ پورے طور پر وصول کرو ۔ آپ نے ان سے یعنی عباس رضی اللہ عنہ سے یہ بھی فرمایا تھا کہ آپ نہ صرف اپنا بلکہ اپنے دونوں بھتیجوں عقیل اور نوفل اور اپنے حلیف عتبہ بن عمرو کا فدیہ بھی اداکریں کیونکہ آپ مالدار ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ میں تو مسلمان ہوں مگر مکہ کے مشرک زبردستی مجھ کو پکڑ لائے ہیں ۔ آپ نے فرمایا اللہ بہتر جانتا ہے اگر ایسا ہوا ہے تو اللہ تعالی آپ کے اس نقصان کی تلافی کردے گا ۔ ظاہر میں تو آپ ان مکہ والوں کے ساتھ ہو کر مسلمانوں سے لڑنے آئے ۔ کہتے ہیں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو کعب بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ نے پکڑا اور زور سے مشکیں کس دیں ۔ وہ اس تکلیف سے ہائے ہائے کرتے رہے ۔ ان کی آواز سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رات نیند نہیں آئی ۔ آخر صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان کی مشکیں ڈھیلی کردیں ۔ تب آپ آرام سے سوئے صبح کو انصار نے آپ کو مزید خوش کرنے کے لیے ان کا فدیہ بھی معاف کرنا چاہا اور کہا کہ ہم خود اپنے پاس سے ان کا فدیہ ادا کردیں گے لیکن یہ انصاف کے خلاف تھا اس لیے آپ نے منظور نہیں فرمایا ۔ اس حدیث سے باب کی مناسبت یہ ہے کہ اس میں کئی انصاری آدمیوں کا جنگ بدر میں شریک ہونا مذکور ہے ۔ ان کے نام مذکور نہیں ہے۔