‌صحيح البخاري - حدیث 4

كِتَابُ بَدْءِ الوَحْيِ بَابٌ صحيح قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: وَأَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيَّ، قَالَ: وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الوَحْيِ فَقَالَ فِي حَدِيثِهِ: بَيْنَا أَنَا أَمْشِي إِذْ سَمِعْتُ صَوْتًا مِنَ السَّمَاءِ، فَرَفَعْتُ بَصَرِي، فَإِذَا المَلَكُ الَّذِي جَاءَنِي بِحِرَاءٍ جَالِسٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ، فَرُعِبْتُ مِنْهُ، فَرَجَعْتُ فَقُلْتُ: زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {يَا أَيُّهَا المُدَّثِّرُ. قُمْ فَأَنْذِرْ} [المدثر: 2] إِلَى [ص:8] قَوْلِهِ {وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ} [المدثر: 5]. فَحَمِيَ الوَحْيُ وَتَتَابَعَ تَابَعَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، وَأَبُو صَالِحٍ، وَتَابَعَهُ هِلاَلُ بْنُ رَدَّادٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، وَقَالَ يُونُسُ، وَمَعْمَرٌ بَوَادِرُهُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4

کتاب: وحی کے بیان میں باب: (حدیث نیت کی درستگی میں) ابن شہاب کہتے ہیں مجھ کو ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہا سے یہ روایت نقل کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کے رک جانے کے زمانے کے حالات بیان فرماتے ہوئے کہا کہ ایک روز میں چلا جا رہا تھا کہ اچانک میں نے آسمان کی طرف ایک آواز سنی اور میں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا وہ آسمان و زمین کے بیچ میں ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ میں اس سے ڈر گیا اور گھر آنے پر میں نے پھر کمبل اوڑھنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس وقت اللہ پاک کی طرف سے یہ آیات نازل ہوئیں۔ اے لحاف اوڑھ کر لیٹنے والے! اٹھ کھڑا ہو اور لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرا اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر اور اپنے کپڑوں کو پاک صاف رکھ اور گندگی سے دور رہ۔ اس کے بعد وحی تیزی کے ساتھ پے در پے آنے لگی۔ اس حدیث کو یحییٰ بن بکیر کے علاوہ لیث بن سعد سے عبداللہ بن یوسف اور ابو صالح نے بھی روایت کیا ہے۔ اور عقیل کے علاوہ زہری سے بلال بن رواد نے بھی روایت کیا ہے۔ یونس اور معمر نے اپنی روایت میں لفظ “ فوادہ ” کی جگہ “ بوادرہ ” نقل کیا ہے۔
تشریح : بوادر،بادرۃ کی جمع ہے۔ جوگردن اور مونڈھے کے درمیانی حصہ جسم پر بولا جاتا ہے۔ کسی دہشت انگیز منظر کو دیکھ کر بسااوقات یہ حصہ بھی پھڑکنے لگتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ اس حیرت انگیز واقعہ سے آپ کے کاندھے کا گوشت تیزی سے پھڑکنے لگا۔ ابتدائے وحی کے متعلق اس حدیث سے بہت سے امور پر روشنی پڑتی ہے۔ اوّل منامات صادقہ ( سچے خوابوں ) کے ذریعہ آپ کا رابطہ عالم مثال سے قائم کرایا گیا، ساتھ ہی آپ نے غارحرا میں خلوت اختیارکی۔ یہ غار مکہ مکرمہ سے تقریباً تین میل کے فاصلہ پر ہے۔ آپ نے وہاں “ تحنث ” اختیار فرمایا۔ لفظ تحنث زمانہ جاہلیت کی اصطلاح ہے۔ اس زمانہ میں عبادت کا اہم طریقہ یہی سمجھا جاتا تھا کہ آدمی کسی گوشے میں دنیاومافیہا سے الگ ہوکر کچھ راتیں یادِ خدا میں بسرکرے۔ چونکہ آپ کے پاس اس وقت تک وحی الٰہی نہیں آئی تھی، اس لیے آپ نے یہ عمل اختیار فرمایا اور یادِالٰہی، ذکروفکر ومراقبہ نفس میں بالقائے ربانی وہاں وقت گذارا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو تین مرتبہ اپنے سینے سے آپ کا سینہ ملاکر زور سے اس لیے بھینچا کہ بحکم خدا آپ کا سینہ کھل جائے اور ایک خاکی ومادی مخلوق کو نورانی مخلوق سے فوری رابطہ حاصل ہوجائے۔ یہی ہوا کہ آپ بعد میں وحی الٰہی اقرا باسم ربک کو فرفر ادا کرنے لگے۔ پہلی وحی میں یہ سلسلہ علوم معرفت حق وخلقت انسانی واہمیت قلم وآداب تعلیم اور علم وجہل کے فرق پر جوجولطیف اشارات کئے گئے ہیں، ان کی تفصیل کایہ موقع نہیں، نہ یہاں گنجائش ہے۔ ورقہ بن نوفل عہدجاہلیت میں بت پر ستی سے متنفر ہوکر نصرانی ہوگئے تھے اور ان کو سریانی وعبرانی علوم حاصل تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی وفات پر ان کو جنتی لباس میں دیکھا اس لیے کہ یہ شروع ہی میں آپ پر ایمان لاچکے تھے۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے آپ کی ہمت افزائی کے لیے جو کچھ فرمایاوہ آپ کے اخلاق فاضلہ کی ایک بہترین تصویر ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے عرف عام کے پیش نظر فرمایا کہ آپ جیسے ہمدرد انسانیت بااخلاق ہرگز ذلیل وخوار نہیں ہوا کرتے۔ بلکہ آپ کا مستقبل تو بے حد شاندارہے۔ ورقہ نے حالات سن کر حضرت جبرئیل علیہ السلام کو لفظ “ ناموس اکبر ” سے یادفرمایا۔ علامہ قسطلانی رحمہ اللہ شرح بخاری میں فرماتے ہیں ہو صاحب سرالوحی والمراد بہ جبرئیل علیہ الصلوۃ والسلام واہل الکتاب یسمونہ الناموس الاکبر یعنی یہ وحی کے رازداں حضرت جبرئیل علیہ السلام ہیں جن کو اہل کتاب “ ناموس اکبر ” کے نام سے موسوم کیا کرتے تھے۔ حضرت ورقہ نے باوجودیکہ وہ عیسائی تھے مگریہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نام لیا، اس لیے کہ حضرت موسیٰ ہی صاحب شریعت ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام شریعت موسوی ہی کے مبلغ تھے۔ اس کے بعد تین یااڑھائی سال تک وحی کا سلسلہ بند رہا کہ اچانک مدثر کا نزول ہوا۔ پھر برابر پے درپے وحی آنے لگی۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو دبایا۔ اس کے متعلق علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہذا الغط لیفرغہ من النظر الی امور الدنیا ویقبل بکلیۃ الی مایلقی الیہ وکررہ للمبالغۃ واستدل بہ علی ان المودب لایضرب صبیا اکثر من ثلاث ضربات وقیل الغطۃ الاولیٰ لیتخلیٰ عن الدنیا والثانیۃ لیتفرغ لما یوحی الیہ والثالثۃ للموانسۃ ( ارشاد الساری 63/1 ) یعنی یہ دبانا اس لیے تھا کہ آپ کو دنیاوی امور کی طرف نظر ڈالنے سے فارغ کرکے جووحی وباررسالت آپ پر ڈالا جارہا ہے، اس کے کلی طور پر قبول کرنے کے لیے آپ کو تیار کردیاجائے۔ اس واقعہ سے دلیل پکڑی گئی ہے کہ معلّم کے لیے مناسب ہے کہ بوقت ضرورت اگرمتعلّم کو مارنا ہی ہو توتین دفعہ سے زیادہ نہ مارے۔ بعض لوگوںنے اس واقعہ “ غطہ ” کوآنحضرت کے خصائص میں شمار کیا ہے۔ اس لیے کہ دیگر انبیاءکی ابتداءوحی کے وقت ایسا واقعہ کہیں منقول نہیں ہوا۔ حضرت ورقہ بن نوفل نے آپ کے حالات سن کر جو کچھ خوشی کا اظہار کیا۔ اس کی مزید تفصیل علامہ قسطلانی یوں نقل فرماتے ہیں۔ ( فقال لہ ورقۃ ابشرثم ابشر فانااشہدانک الدی بشربہ ابن مریم وانک علی مثل ناموس موسیٰ وانک نبی مرسل ) یعنی ورقہ نے کہا کہ خوش ہوجائیے، خوش ہوجائیے، میں یقینا گواہی دیتاہوں کہ آپ وہی نبی ورسول ہیں جن کی بشارت حضرت عیسیٰ ابن مریمعلیہ السلام نے دی تھی اور آپ پر وہی ناموس نازل ہوا ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا کرتا تھا اور آپ بے شک اللہ کے فرستادہ سچے رسول ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ورقہ بن نوفل کو مرنے کے بعدجنتی لباس میں دیکھا تھا۔ اس لیے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا اور آپ کی تصدیق کی، اس لیے جنتی ہوا۔ ورقہ بن نوفل کے اس واقعہ سے یہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ اگرکوئی شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے اور اس کو دوسرے اسلامی فرائض ادا کرنے کا موقع نہ ملے، اس سے پہلے ہی وہ انتقال کرجائے، اللہ پاک ایمانی برکت سے اسے جنت میں داخل کرے گا۔ حضرت مولاناثناءاللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ: بذیل تفسیر سورۃ مدثر “ وثیابک فطہر ” فرماتے ہیں کہ عرب کے شعراءثیاب سے مراد دل لیا کرتے ہیں۔ امرالقیس کہتا ہے۔ وان کنت قد ساتک منی خلیقۃ فسلی ثیابی من ثیابک تنسلی اس شعر میں ثیاب سے مراد دل ہے۔یہاں مناسب یہی ہے کیونکہ کپڑوں کا پاک رکھنا صحت صلوٰۃ کے لیے ضروری ہے مگردل کا پاک صاف رکھنا ہرحال میں لازمی ہے۔ حدیث شریف میں وارد ہے ( ان فی الجسد مضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسدالجسد کلہ الا وہی القلب ) یعنی انسان کے جسم میں ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو توسارا جسم درست ہو جاتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے توسارا جسم بگڑ جاتا ہے، سووہ دل ہے۔ ( اللہم اصلح قلبی وقلب کل ناظر ) ( تفسیر ثنائی ) عجیب لطیفہ: قرآن کی کون سی سورۃ پہلے نازل ہوئی، اس بارے میں قدرے اختلاف ہے مگر سورۃ اقراءباسم ربک الذی پر تقریباً اکثرکا اتفاق ہے، اس کے بعد فترۃ وحی کا زمانہ اڑھائی تین سال رہا اور پہلی سورۃ یاایہا المدثر نازل ہوئی۔ مسلکی تعصب کا حال ملاحظہ ہوکہ اس مقام پر ایک صاحب نے جو بخاری شریف کا ترجمہ باشرح شائع فرما رہے ہیں۔اس سے سورۃ فاتحہ کی نماز میں عدم رکنیت پر دلیل پکڑی ہے۔ چنانچہ آپ کے الفاظ یہ ہیں: “ سب سے پہلے سورۃ اقرانازل ہوئی اور سورۃ فاتحہ کا نزول بعد کو ہوا ہے تو جب تک اس کا نزول نہیں ہوا تھا، اس زمانے کی نمازیں کس طرح درست ہوئیں؟ جب کہ فاتحہ رکن نماز ہے کہ بغیر اس کے نماز درست نہیں ہوسکتی قائلین رکنیت فاتحہ جواب دیں۔ ” ( انوارالباری، جلد: اولص40 ) نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنا صحت نماز کے لیے ضروری ہے، اس پر یہاں تفصیل سے لکھنے کا موقع نہیں نہ اس بحث کا یہ محل ہے ہاں حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے لفظوں میں اتنا عرض کردینا ضروری ہے کہ فان قراءتہا فریضۃ وہی رکن تبطل الصلوۃ بترکہا ( غنیہ الطالبین، ص: 53 ) یعنی نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنا بطور رکن نماز فرض ہے جس کے ترک کرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے، موصوف کے جواب میں ہم سردست اتنا عرض کردینا کافی سمجھتے ہیں کہ جب کہ ابھی سورۃ فاتحہ کا نزول ہی نہیں ہوا تھا جیسا کہ موصوف نے بھی لکھا ہے تواس موقع پر اس کی رکنیت یافرضیت کا سوال ہی کیا ہے؟ ابتدائے رسالت میں بہت سے اسلامی احکام وجود میں نہیں آئے تھے جو بعد میں بتلائے گئے۔ پھر اگر کوئی کہنے لگے کہ یہ احکام شروع زمانہ رسالت میں نہ تھے تو ان کا ماننا ضروری کیوں؟ غالباً کوئی ذی عقل انسان اس بات کو صحیح نہیں سمجھے گا۔ پہلے صرف دو نمازیں تھیں بعد میں نماز پنج وقتہ کا طریقہ جاری ہوا، پہلے اذان بھی نہ تھی بعدمیں اذان کا سلسلہ جاری ہوا۔ مکی زندگی میں رمضان کے روزے فرض نہیں تھے، مدنی زندگی میں یہ فرض عائد کیاگیا۔ پھر کیا موصوف کی اس نازک دلیل کی بنا پر ان جملہ امور کا انکار کیاجا سکتا ہے؟ ایک ادنیٰ تامل سے یہ حقیقت واضح ہوسکتی تھی، مگرجہاں قدم قدم پر مسلکی وفقہی جمود کام کررہا ہو وہاں وسعت نظری کی تلاش عبث ہے۔ خلاصہ یہ کہ جب بھی سورۃ فاتحہ کا نزول ہوا اور نماز فرض باجماعت کا طریقہ اسلام میں رائج ہوا، اس سورۃ شریفہ کو رکن نماز قرار دیاگیا۔ نزول سورہ وفرض نمازجماعت سے قبل ان چیزوں کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوسکتا۔ باقی مباحث اپنے مقام پر آئیں گے۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔ حدیث قدسی میں سورۃ فاتحہ کو “ نماز ” کہا گیا ہے۔ شاید معترض صاحب اس پر بھی یوں کہنے لگیں کہ جب سورۃ فاتحہ ہی اصل نماز ہے تو اس کے نزول سے قبل والی نمازوں کو نمازکہنا کیوں کر صحیح ہوگا۔ خلاصہ یہ کہ سورۃ فاتحہ نماز کا ایک ضروری رکن ہے اور معترض کا قول صحیح نہیں۔ یہ جواب اس بنا پر ہے کہ سورہ فاتحہ کا نزول مکہ میں نہ ماناجائے لیکن اگر مان لیا جائے جیسا کہ کتب تفاسیر سے ثابت ہے کہ سورہ فاتحہ مکہ میں نازل ہوئی تومکہ شریف ہی میں اس کی رکنیت نماز کے لیے ثابت ہوگی۔ بوادر،بادرۃ کی جمع ہے۔ جوگردن اور مونڈھے کے درمیانی حصہ جسم پر بولا جاتا ہے۔ کسی دہشت انگیز منظر کو دیکھ کر بسااوقات یہ حصہ بھی پھڑکنے لگتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ اس حیرت انگیز واقعہ سے آپ کے کاندھے کا گوشت تیزی سے پھڑکنے لگا۔ ابتدائے وحی کے متعلق اس حدیث سے بہت سے امور پر روشنی پڑتی ہے۔ اوّل منامات صادقہ ( سچے خوابوں ) کے ذریعہ آپ کا رابطہ عالم مثال سے قائم کرایا گیا، ساتھ ہی آپ نے غارحرا میں خلوت اختیارکی۔ یہ غار مکہ مکرمہ سے تقریباً تین میل کے فاصلہ پر ہے۔ آپ نے وہاں “ تحنث ” اختیار فرمایا۔ لفظ تحنث زمانہ جاہلیت کی اصطلاح ہے۔ اس زمانہ میں عبادت کا اہم طریقہ یہی سمجھا جاتا تھا کہ آدمی کسی گوشے میں دنیاومافیہا سے الگ ہوکر کچھ راتیں یادِ خدا میں بسرکرے۔ چونکہ آپ کے پاس اس وقت تک وحی الٰہی نہیں آئی تھی، اس لیے آپ نے یہ عمل اختیار فرمایا اور یادِالٰہی، ذکروفکر ومراقبہ نفس میں بالقائے ربانی وہاں وقت گذارا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو تین مرتبہ اپنے سینے سے آپ کا سینہ ملاکر زور سے اس لیے بھینچا کہ بحکم خدا آپ کا سینہ کھل جائے اور ایک خاکی ومادی مخلوق کو نورانی مخلوق سے فوری رابطہ حاصل ہوجائے۔ یہی ہوا کہ آپ بعد میں وحی الٰہی اقرا باسم ربک کو فرفر ادا کرنے لگے۔ پہلی وحی میں یہ سلسلہ علوم معرفت حق وخلقت انسانی واہمیت قلم وآداب تعلیم اور علم وجہل کے فرق پر جوجولطیف اشارات کئے گئے ہیں، ان کی تفصیل کایہ موقع نہیں، نہ یہاں گنجائش ہے۔ ورقہ بن نوفل عہدجاہلیت میں بت پر ستی سے متنفر ہوکر نصرانی ہوگئے تھے اور ان کو سریانی وعبرانی علوم حاصل تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی وفات پر ان کو جنتی لباس میں دیکھا اس لیے کہ یہ شروع ہی میں آپ پر ایمان لاچکے تھے۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے آپ کی ہمت افزائی کے لیے جو کچھ فرمایاوہ آپ کے اخلاق فاضلہ کی ایک بہترین تصویر ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے عرف عام کے پیش نظر فرمایا کہ آپ جیسے ہمدرد انسانیت بااخلاق ہرگز ذلیل وخوار نہیں ہوا کرتے۔ بلکہ آپ کا مستقبل تو بے حد شاندارہے۔ ورقہ نے حالات سن کر حضرت جبرئیل علیہ السلام کو لفظ “ ناموس اکبر ” سے یادفرمایا۔ علامہ قسطلانی رحمہ اللہ شرح بخاری میں فرماتے ہیں ہو صاحب سرالوحی والمراد بہ جبرئیل علیہ الصلوۃ والسلام واہل الکتاب یسمونہ الناموس الاکبر یعنی یہ وحی کے رازداں حضرت جبرئیل علیہ السلام ہیں جن کو اہل کتاب “ ناموس اکبر ” کے نام سے موسوم کیا کرتے تھے۔ حضرت ورقہ نے باوجودیکہ وہ عیسائی تھے مگریہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نام لیا، اس لیے کہ حضرت موسیٰ ہی صاحب شریعت ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام شریعت موسوی ہی کے مبلغ تھے۔ اس کے بعد تین یااڑھائی سال تک وحی کا سلسلہ بند رہا کہ اچانک مدثر کا نزول ہوا۔ پھر برابر پے درپے وحی آنے لگی۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو دبایا۔ اس کے متعلق علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہذا الغط لیفرغہ من النظر الی امور الدنیا ویقبل بکلیۃ الی مایلقی الیہ وکررہ للمبالغۃ واستدل بہ علی ان المودب لایضرب صبیا اکثر من ثلاث ضربات وقیل الغطۃ الاولیٰ لیتخلیٰ عن الدنیا والثانیۃ لیتفرغ لما یوحی الیہ والثالثۃ للموانسۃ ( ارشاد الساری 63/1 ) یعنی یہ دبانا اس لیے تھا کہ آپ کو دنیاوی امور کی طرف نظر ڈالنے سے فارغ کرکے جووحی وباررسالت آپ پر ڈالا جارہا ہے، اس کے کلی طور پر قبول کرنے کے لیے آپ کو تیار کردیاجائے۔ اس واقعہ سے دلیل پکڑی گئی ہے کہ معلّم کے لیے مناسب ہے کہ بوقت ضرورت اگرمتعلّم کو مارنا ہی ہو توتین دفعہ سے زیادہ نہ مارے۔ بعض لوگوںنے اس واقعہ “ غطہ ” کوآنحضرت کے خصائص میں شمار کیا ہے۔ اس لیے کہ دیگر انبیاءکی ابتداءوحی کے وقت ایسا واقعہ کہیں منقول نہیں ہوا۔ حضرت ورقہ بن نوفل نے آپ کے حالات سن کر جو کچھ خوشی کا اظہار کیا۔ اس کی مزید تفصیل علامہ قسطلانی یوں نقل فرماتے ہیں۔ ( فقال لہ ورقۃ ابشرثم ابشر فانااشہدانک الدی بشربہ ابن مریم وانک علی مثل ناموس موسیٰ وانک نبی مرسل ) یعنی ورقہ نے کہا کہ خوش ہوجائیے، خوش ہوجائیے، میں یقینا گواہی دیتاہوں کہ آپ وہی نبی ورسول ہیں جن کی بشارت حضرت عیسیٰ ابن مریمعلیہ السلام نے دی تھی اور آپ پر وہی ناموس نازل ہوا ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا کرتا تھا اور آپ بے شک اللہ کے فرستادہ سچے رسول ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ورقہ بن نوفل کو مرنے کے بعدجنتی لباس میں دیکھا تھا۔ اس لیے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا اور آپ کی تصدیق کی، اس لیے جنتی ہوا۔ ورقہ بن نوفل کے اس واقعہ سے یہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ اگرکوئی شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے اور اس کو دوسرے اسلامی فرائض ادا کرنے کا موقع نہ ملے، اس سے پہلے ہی وہ انتقال کرجائے، اللہ پاک ایمانی برکت سے اسے جنت میں داخل کرے گا۔ حضرت مولاناثناءاللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ: بذیل تفسیر سورۃ مدثر “ وثیابک فطہر ” فرماتے ہیں کہ عرب کے شعراءثیاب سے مراد دل لیا کرتے ہیں۔ امرالقیس کہتا ہے۔ وان کنت قد ساتک منی خلیقۃ فسلی ثیابی من ثیابک تنسلی اس شعر میں ثیاب سے مراد دل ہے۔یہاں مناسب یہی ہے کیونکہ کپڑوں کا پاک رکھنا صحت صلوٰۃ کے لیے ضروری ہے مگردل کا پاک صاف رکھنا ہرحال میں لازمی ہے۔ حدیث شریف میں وارد ہے ( ان فی الجسد مضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسدالجسد کلہ الا وہی القلب ) یعنی انسان کے جسم میں ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو توسارا جسم درست ہو جاتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے توسارا جسم بگڑ جاتا ہے، سووہ دل ہے۔ ( اللہم اصلح قلبی وقلب کل ناظر ) ( تفسیر ثنائی ) عجیب لطیفہ: قرآن کی کون سی سورۃ پہلے نازل ہوئی، اس بارے میں قدرے اختلاف ہے مگر سورۃ اقراءباسم ربک الذی پر تقریباً اکثرکا اتفاق ہے، اس کے بعد فترۃ وحی کا زمانہ اڑھائی تین سال رہا اور پہلی سورۃ یاایہا المدثر نازل ہوئی۔ مسلکی تعصب کا حال ملاحظہ ہوکہ اس مقام پر ایک صاحب نے جو بخاری شریف کا ترجمہ باشرح شائع فرما رہے ہیں۔اس سے سورۃ فاتحہ کی نماز میں عدم رکنیت پر دلیل پکڑی ہے۔ چنانچہ آپ کے الفاظ یہ ہیں: “ سب سے پہلے سورۃ اقرانازل ہوئی اور سورۃ فاتحہ کا نزول بعد کو ہوا ہے تو جب تک اس کا نزول نہیں ہوا تھا، اس زمانے کی نمازیں کس طرح درست ہوئیں؟ جب کہ فاتحہ رکن نماز ہے کہ بغیر اس کے نماز درست نہیں ہوسکتی قائلین رکنیت فاتحہ جواب دیں۔ ” ( انوارالباری، جلد: اولص40 ) نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنا صحت نماز کے لیے ضروری ہے، اس پر یہاں تفصیل سے لکھنے کا موقع نہیں نہ اس بحث کا یہ محل ہے ہاں حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے لفظوں میں اتنا عرض کردینا ضروری ہے کہ فان قراءتہا فریضۃ وہی رکن تبطل الصلوۃ بترکہا ( غنیہ الطالبین، ص: 53 ) یعنی نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنا بطور رکن نماز فرض ہے جس کے ترک کرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے، موصوف کے جواب میں ہم سردست اتنا عرض کردینا کافی سمجھتے ہیں کہ جب کہ ابھی سورۃ فاتحہ کا نزول ہی نہیں ہوا تھا جیسا کہ موصوف نے بھی لکھا ہے تواس موقع پر اس کی رکنیت یافرضیت کا سوال ہی کیا ہے؟ ابتدائے رسالت میں بہت سے اسلامی احکام وجود میں نہیں آئے تھے جو بعد میں بتلائے گئے۔ پھر اگر کوئی کہنے لگے کہ یہ احکام شروع زمانہ رسالت میں نہ تھے تو ان کا ماننا ضروری کیوں؟ غالباً کوئی ذی عقل انسان اس بات کو صحیح نہیں سمجھے گا۔ پہلے صرف دو نمازیں تھیں بعد میں نماز پنج وقتہ کا طریقہ جاری ہوا، پہلے اذان بھی نہ تھی بعدمیں اذان کا سلسلہ جاری ہوا۔ مکی زندگی میں رمضان کے روزے فرض نہیں تھے، مدنی زندگی میں یہ فرض عائد کیاگیا۔ پھر کیا موصوف کی اس نازک دلیل کی بنا پر ان جملہ امور کا انکار کیاجا سکتا ہے؟ ایک ادنیٰ تامل سے یہ حقیقت واضح ہوسکتی تھی، مگرجہاں قدم قدم پر مسلکی وفقہی جمود کام کررہا ہو وہاں وسعت نظری کی تلاش عبث ہے۔ خلاصہ یہ کہ جب بھی سورۃ فاتحہ کا نزول ہوا اور نماز فرض باجماعت کا طریقہ اسلام میں رائج ہوا، اس سورۃ شریفہ کو رکن نماز قرار دیاگیا۔ نزول سورہ وفرض نمازجماعت سے قبل ان چیزوں کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوسکتا۔ باقی مباحث اپنے مقام پر آئیں گے۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔ حدیث قدسی میں سورۃ فاتحہ کو “ نماز ” کہا گیا ہے۔ شاید معترض صاحب اس پر بھی یوں کہنے لگیں کہ جب سورۃ فاتحہ ہی اصل نماز ہے تو اس کے نزول سے قبل والی نمازوں کو نمازکہنا کیوں کر صحیح ہوگا۔ خلاصہ یہ کہ سورۃ فاتحہ نماز کا ایک ضروری رکن ہے اور معترض کا قول صحیح نہیں۔ یہ جواب اس بنا پر ہے کہ سورہ فاتحہ کا نزول مکہ میں نہ ماناجائے لیکن اگر مان لیا جائے جیسا کہ کتب تفاسیر سے ثابت ہے کہ سورہ فاتحہ مکہ میں نازل ہوئی تومکہ شریف ہی میں اس کی رکنیت نماز کے لیے ثابت ہوگی۔