‌صحيح البخاري - حدیث 3995

كِتَابُ المَغَازِي بَابُ شُهُودِ المَلاَئِكَةِ بَدْرًا صحيح حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَوْمَ بَدْرٍ هَذَا جِبْرِيلُ آخِذٌ بِرَأْسِ فَرَسِهِ عَلَيْهِ أَدَاةُ الْحَرْبِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3995

کتاب: غزوات کے بیان میں باب: جنگ بدر میں فرشتوں کا شریک ہونا مجھ سے ابراہیم نے بیان کیا ، ہم کو عبد الوہاب ثقفی نے خبر دی ، کہا ہم سے خالد حذاءنے بیان کیا ، ان سے عکرمہ نے اور ان سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کی لڑائی میں فرما یا تھا ، یہ ہیں حضرت جبرئیل علیہ السلام اپنے گھوڑے کا سر تھامے ہوے اور ہتھیار لگائے ہوئے ۔
تشریح : جن کو اللہ تعالی نے مسلمانوں کی مدد کے لیے اور بھی بہت سے فرشتوں کے ساتھ میدان جنگ میں بھیجا ہے۔ سعید بن منصور کی روایت میں ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام سرخ گھوڑے پر سوار تھے۔ اس کی پیشانی کے بال گندھے ہوئے تھے۔ ابن اسحاق نے ابو واقد لیثی سے نکالا کہ میں بدر کے دن ایک کافر کو مارنے چلا مگر میرے پہنچنے سے پہلے ہی اس کا سر خود بخود تن سے جدا ہوکر گر پڑا۔ ابھی میری تلوار اس کے قریب پہنچی بھی نہ تھی۔ بیہقی نے نکا لا کہ بدر کے دن ایک سخت آندھی چلی پھر دوسری مرتبہ ایک سخت آندھی چلی۔ پہلی آ ندھی حضرت جبرئیل علیہ السلام کی آمد تھی۔ دوسری حضرت میکائیل علیہ السلام کی آمد پر تھی۔ اگرچہ اللہ کا ایک ہی فرشتہ دنیا کے سارے کافروں کو مارنے کے لیے کافی تھا مگر پرور دگارکو یہ منظور ہوا کہ فرشتوں کو بطور سپاہیوں کے بھیجے اور ان سے عادت اور قوت بشری کے موافق کام لے۔ جن کو اللہ تعالی نے مسلمانوں کی مدد کے لیے اور بھی بہت سے فرشتوں کے ساتھ میدان جنگ میں بھیجا ہے۔ سعید بن منصور کی روایت میں ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام سرخ گھوڑے پر سوار تھے۔ اس کی پیشانی کے بال گندھے ہوئے تھے۔ ابن اسحاق نے ابو واقد لیثی سے نکالا کہ میں بدر کے دن ایک کافر کو مارنے چلا مگر میرے پہنچنے سے پہلے ہی اس کا سر خود بخود تن سے جدا ہوکر گر پڑا۔ ابھی میری تلوار اس کے قریب پہنچی بھی نہ تھی۔ بیہقی نے نکا لا کہ بدر کے دن ایک سخت آندھی چلی پھر دوسری مرتبہ ایک سخت آندھی چلی۔ پہلی آ ندھی حضرت جبرئیل علیہ السلام کی آمد تھی۔ دوسری حضرت میکائیل علیہ السلام کی آمد پر تھی۔ اگرچہ اللہ کا ایک ہی فرشتہ دنیا کے سارے کافروں کو مارنے کے لیے کافی تھا مگر پرور دگارکو یہ منظور ہوا کہ فرشتوں کو بطور سپاہیوں کے بھیجے اور ان سے عادت اور قوت بشری کے موافق کام لے۔