‌صحيح البخاري - حدیث 3989

كِتَابُ المَغَازِي بَابُ فَضْلِ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا صحيح حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ أَسِيدِ بْنِ جَارِيَةَ الثَّقَفِيُّ حَلِيفُ بَنِي زُهْرَةَ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشَرَةً عَيْنًا وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَاصِمَ بْنَ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيَّ جَدَّ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالْهَدَةِ بَيْنَ عَسْفَانَ وَمَكَّةَ ذُكِرُوا لِحَيٍّ مِنْ هُذَيْلٍ يُقَالُ لَهُمْ بَنُو لِحْيَانَ فَنَفَرُوا لَهُمْ بِقَرِيبٍ مِنْ مِائَةِ رَجُلٍ رَامٍ فَاقْتَصُّوا آثَارَهُمْ حَتَّى وَجَدُوا مَأْكَلَهُمْ التَّمْرَ فِي مَنْزِلٍ نَزَلُوهُ فَقَالُوا تَمْرُ يَثْرِبَ فَاتَّبَعُوا آثَارَهُمْ فَلَمَّا حَسَّ بِهِمْ عَاصِمٌ وَأَصْحَابُهُ لَجَئُوا إِلَى مَوْضِعٍ فَأَحَاطَ بِهِمْ الْقَوْمُ فَقَالُوا لَهُمْ انْزِلُوا فَأَعْطُوا بِأَيْدِيكُمْ وَلَكُمْ الْعَهْدُ وَالْمِيثَاقُ أَنْ لَا نَقْتُلَ مِنْكُمْ أَحَدًا فَقَالَ عَاصِمُ بْنُ ثَابِتٍ أَيُّهَا الْقَوْمُ أَمَّا أَنَا فَلَا أَنْزِلُ فِي ذِمَّةِ كَافِرٍ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ أَخْبِرْ عَنَّا نَبِيَّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَمَوْهُمْ بِالنَّبْلِ فَقَتَلُوا عَاصِمًا وَنَزَلَ إِلَيْهِمْ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ عَلَى الْعَهْدِ وَالْمِيثَاقِ مِنْهُمْ خُبَيْبٌ وَزَيْدُ بْنُ الدَّثِنَةِ وَرَجُلٌ آخَرُ فَلَمَّا اسْتَمْكَنُوا مِنْهُمْ أَطْلَقُوا أَوْتَارَ قِسِيِّهِمْ فَرَبَطُوهُمْ بِهَا قَالَ الرَّجُلُ الثَّالِثُ هَذَا أَوَّلُ الْغَدْرِ وَاللَّهِ لَا أَصْحَبُكُمْ إِنَّ لِي بِهَؤُلَاءِ أُسْوَةً يُرِيدُ الْقَتْلَى فَجَرَّرُوهُ وَعَالَجُوهُ فَأَبَى أَنْ يَصْحَبَهُمْ فَانْطُلِقَ بِخُبَيْبٍ وَزَيْدِ بْنِ الدَّثِنَةِ حَتَّى بَاعُوهُمَا بَعْدَ وَقْعَةِ بَدْرٍ فَابْتَاعَ بَنُو الْحَارِثِ بْنِ عَامِرِ بْنِ نَوْفَلٍ خُبَيْبًا وَكَانَ خُبَيْبٌ هُوَ قَتَلَ الْحَارِثَ بْنَ عَامِرٍ يَوْمَ بَدْرٍ فَلَبِثَ خُبَيْبٌ عِنْدَهُمْ أَسِيرًا حَتَّى أَجْمَعُوا قَتْلَهُ فَاسْتَعَارَ مِنْ بَعْضِ بَنَاتِ الْحَارِثِ مُوسًى يَسْتَحِدُّ بِهَا فَأَعَارَتْهُ فَدَرَجَ بُنَيٌّ لَهَا وَهِيَ غَافِلَةٌ حَتَّى أَتَاهُ فَوَجَدَتْهُ مُجْلِسَهُ عَلَى فَخِذِهِ وَالْمُوسَى بِيَدِهِ قَالَتْ فَفَزِعْتُ فَزْعَةً عَرَفَهَا خُبَيْبٌ فَقَالَ أَتَخْشَيْنَ أَنْ أَقْتُلَهُ مَا كُنْتُ لِأَفْعَلَ ذَلِكَ قَالَتْ وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ أَسِيرًا قَطُّ خَيْرًا مِنْ خُبَيْبٍ وَاللَّهِ لَقَدْ وَجَدْتُهُ يَوْمًا يَأْكُلُ قِطْفًا مِنْ عِنَبٍ فِي يَدِهِ وَإِنَّهُ لَمُوثَقٌ بِالْحَدِيدِ وَمَا بِمَكَّةَ مِنْ ثَمَرَةٍ وَكَانَتْ تَقُولُ إِنَّهُ لَرِزْقٌ رَزَقَهُ اللَّهُ خُبَيْبًا فَلَمَّا خَرَجُوا بِهِ مِنْ الْحَرَمِ لِيَقْتُلُوهُ فِي الْحِلِّ قَالَ لَهُمْ خُبَيْبٌ دَعُونِي أُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ فَتَرَكُوهُ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ فَقَالَ وَاللَّهِ لَوْلَا أَنْ تَحْسِبُوا أَنَّ مَا بِي جَزَعٌ لَزِدْتُ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ أَحْصِهِمْ عَدَدًا وَاقْتُلْهُمْ بَدَدًا وَلَا تُبْقِ مِنْهُمْ أَحَدًا ثُمَّ أَنْشَأَ يَقُولُ فَلَسْتُ أُبَالِي حِينَ أُقْتَلُ مُسْلِمًا عَلَى أَيِّ جَنْبٍ كَانَ لِلَّهِ مَصْرَعِي وَذَلِكَ فِي ذَاتِ الْإِلَهِ وَإِنْ يَشَأْ يُبَارِكْ عَلَى أَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِ ثُمَّ قَامَ إِلَيْهِ أَبُو سِرْوَعَةَ عُقْبَةُ بْنُ الْحَارِثِ فَقَتَلَهُ وَكَانَ خُبَيْبٌ هُوَ سَنَّ لِكُلِّ مُسْلِمٍ قُتِلَ صَبْرًا الصَّلَاةَ وَأَخْبَرَ أَصْحَابَهُ يَوْمَ أُصِيبُوا خَبَرَهُمْ وَبَعَثَ نَاسٌ مِنْ قُرَيْشٍ إِلَى عَاصِمِ بْنِ ثَابِتٍ حِينَ حُدِّثُوا أَنَّهُ قُتِلَ أَنْ يُؤْتَوْا بِشَيْءٍ مِنْهُ يُعْرَفُ وَكَانَ قَتَلَ رَجُلًا عَظِيمًا مِنْ عُظَمَائِهِمْ فَبَعَثَ اللَّهُ لِعَاصِمٍ مِثْلَ الظُّلَّةِ مِنْ الدَّبْرِ فَحَمَتْهُ مِنْ رُسُلِهِمْ فَلَمْ يَقْدِرُوا أَنْ يَقْطَعُوا مِنْهُ شَيْئًا وَقَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ ذَكَرُوا مَرَارَةَ بْنَ الرَّبِيعِ الْعَمْرِيَّ وَهِلَالَ بْنَ أُمَيَّةَ الْوَاقِفِيَّ رَجُلَيْنِ صَالِحَيْنِ قَدْ شَهِدَا بَدْرًا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3989

کتاب: غزوات کے بیان میں باب: بدر کی لڑائی میں حاضر ہونے والوں کی فضیلت کا بیان ہم سے موسی بن اسماعیل نے بیان کیا ، ہم سے ابراہیم نے بیان کیا ، انہیں ابن شہاب نے خبر دی ، کہا کہ مجھے عمر بن اسید بن جاریہ ثقفی نے خبر دی جو بنی زہرہ کے حلیف تھے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگردوں میں شامل تھے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس جاسوس بھیجے اور ان کا امیر عاصم بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو بنایا جو عاصم بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے نانا ہوتے ہیں ۔ جب یہ لوگ عسفان اور مکہ کے درمیان مقام ہدہ پر پہنچے توبنی ہذیل کے ایک قبیلہ کو ان کے آنے کی اطلاع مل گئی ۔ اس قبیلہ کا نام بنی لحیان تھا ۔ اس کے سو تیر انداز ان صحابہ رضی اللہ عنہم کی تلاش میں نکلے اور ان کے نشان قدم کے انداز ے پر چلنے لگے ۔ آخر اس جگہ پہنچ گئے جہاں بیٹھ کر ان صحابہ رضی اللہ عنہم نے کھجور کھائی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ یثرب ( مدینہ ) کی کھجور ( کی گٹھلیاں ) ہیں ۔ اب پھر وہ ان کے نشان قدم کے اندازے پر چلنے لگے ۔ جب حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ اور ان کے سا تھیوں نے ان کے آ نے کو معلوم کر لیا تو ایک ( محفوظ ) جگہ پناہ لی ۔ قبیلہ والوں نے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا اور کہا کہ نیچے اتر آو اور ہماری پناہ خود قبول کرلو تو تم سے ہم وعدہ کر تے ہیں کہ تمہارے کسی آدمی کو بھی ہم قتل نہیں کریں گے ۔ حضرت عاصم بن ثا بت رضی اللہ عنہ نے کہا ۔ مسلمانو ! میں کسی کافر کی پناہ میں نہیں اتر سکتا ۔ پھر انہوں نے دعا کی ، اے اللہ ! ہماے حالات کی خبر اپنے نبیصلی اللہ علیہ وسلم کو کر دے آخر قبیلہ والوں نے مسلمانوں پر تیر اندازی کی اور حضرت عاصم رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا ۔ بعد میں ان کے وعدہ پر تین صحابہ اتر آئے ۔ یہ حضرات حضرت خبیب ، زید بن دثنہ اور ایک تیسرے صحابی تھے ۔ قبیلہ والوں نے جب ان تینوں صحابیوں پر قابو پا لی تو ان کی کمان سے تانت نکال کر اسی سے انہیں باندھ دیا ۔ تیسرے صحابی نے کہا ، یہ تمہاری پہلی دغابازی ہے میں تمہارے ساتھ کبھی نہیںجا سکتا ۔ میرے لیے تو انہیں کی زندگی نمونہ ہے ۔ آپ کا اشارہ ان صحا بہ کی طرف تھا جو ابھی شہید کئے جا چکے تھے ۔ کفار نے انہیں گھسیٹنا شروع کیا اور زبردستی کی لیکن وہ کسی طرح ان کے ساتھ جانے پر تیار نہ ہوئے ۔ ( تو انہوں نے ان کو بھی شہید کر دیا ) اور حضرت خبیب رضی اللہ عنہ اور حضرت زید بن دثنہ رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے گئے اور ( مکہ میں لے جاکر ) انہیں بیچ دیا ۔ یہ بدر کی لڑائی کے بعد کا واقعہ ہے ۔ حارث بن عامر بن نوفل کے لڑکوں نے حضرت خبیب رضی اللہ کو خرید لیا ۔ انہوں ہی نے بدر کی لڑائی میں حارث بن عامر کو قتل کیا تھا ۔ کچھ دنوں تک تو وہ ان کے یہاں قید رہے ، آخر انہوں نے ان کے قتل کا ارادہ کیا ۔ انہیں دنوں حارث کی کسی لڑکی سے انہوں نے موئے زیر ناف صاف کرنے کے لیے استرہ مانگا ۔ اس نے دے دیا ۔ اس وقت ا س کا ایک چھوٹا سابچہ ان کے پاس ( کھیلتا ہوا ) اس عورت کی بے خبری میں چلا گیا ۔ پھر جب وہ ان کی طرف آئی تو دیکھا کہ بچہ ان کی ران پر بیٹھا ہوا ہے ۔ انہوں نے بیان کیا کہ یہ دیکھتے ہی وہ اس درجہ گھبرا گئی کہ حضرت خبیب رضی اللہ عنہ نے اس کی گھبراہٹ کو دیکھ لیا اور بولے ، کیا تمہیں اس کا خوف ہے کہ میں اس بچے کو قتل کردوںگا ؟ یقین رکھو کہ ایسا ہر گز نہیں کر سکتا ۔ ان خاتون نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم ! میں نے کبھی کوئی قیدی حضرت خبیب رضی اللہ عنہ سے بہتر نہیں دیکھا ۔ اللہ کی قسم ! میں نے ایک دن انگور کے ایک خوشہ سے انہیں انگور کھاتے دیکھا جو ان کے ہاتھ میں تھا حالانکہ وہ لوہے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور مکہ میں اس وقت کوئی پھل بھی نہیں تھا ۔ وہ بیان کرتی تھیں کہ وہ تو اللہ کی طرف سے بھیجی ہوئی روزی تھی جو اس نے حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کے لیے بھیجی تھی ۔ پھر بنو حارثہ انہیں قتل کر نے کے لیے حرم سے باہر لے جانے لگے تو خبیب رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ مجھے دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت دے دو ۔ انہوں نے اس کی اجازت دی تو انہوں نے دورکعت نماز پڑھی اور فرمایا ، اللہ کی قسم اگر تمہیں یہ خیال نہ ہونے لگتا کہ میں پریشانی کی وجہ سے ( دیر تک نماز پڑھ رہا ہوں ) تو اور زیا دہ دیر تک پڑھتا ۔ پھر انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ ! ان میں سے ہر ایک کو الگ الگ ہلاک کر اور ایک کوبھی باقی نہ چھوڑ اور یہ اشعار پڑھے ” جب میں اسلام پر قتل کیا جارہا ہوں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ اللہ کی راہ میں مجھے کس پہلو پر پچھاڑا جائے گا اور یہ تو صرف اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہے ۔ اگر وہ چاہے گا تو میرے جسم کے ایک ایک جوڑ پر ثواب عطا فرمائے گا ۔ “ اس کے بعد ابو سروعہ عقبہ بن حارث ان کی طرف بڑھا اوراس نے انہیں شہید کر دیا ۔ حضرت خبیب رضی اللہ عنہ نے اپنے عمل حسن سے ہر اس مسلمان کے لیے جسے قید کر کے قتل کیا جائے ( قتل سے پہلے دو رکعت ) نماز کی سنت قائم کی ہے ۔ ادھر جس دن ان صحابہ رضی اللہ عنہم پر مصیبت آئی تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحا بہ رضی اللہ عنہم کو اسی دن اس کی خبر دے دی تھی ۔ قریش کے کچھ لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ شہید کر دئیے گئے ہیں تو ان کے پاس اپنے آدمی بھیجے تاکہ ان کے جسم کا کوئی ایسا حصہ لائیں جس سے انہیں پہچاناجاسکے ۔ کیوں کہ انہوں نے بھی ( بدر میں ) ان کے ایک سردار ( عقبہ بن ابی معیط ) کو قتل کیا تھا لیکن اللہ تعالی نے ان کی لاش پر بادل کی طرح بھڑوں کی ایک فوج بھیج دی اور انہوں نے آپ کی لاش کو کفار قریش کے ان آدمیوں سے بچالیا اور وہ ان کے جسم کا کوئی حصہ بھی نہ کاٹ سکے اور کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے سامنے لوگوںنے مرارہ بن ربیع عمری رضی اللہ عنہ اور ہلال بن امیہ واقفی رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا ۔ ( جو غزوہ تبوک میں نہیں جاسکے تھے ) کہ وہ صالح صحابیوں میں سے ہیں اور بدر کی لڑائی میں شریک ہوئے تھے ۔ہم سے قتیبہ نے بیان کیا ، ہم سے لیث نے بیان کیا ، ان سے یحییٰ نے ، ان سے نافع نے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے جمعہ کے دن ذکر کیاگیا کہ حضرت سعید بن زید بن عمر و بن نفیل رضی اللہ عنہما جو بدری صحا بی تھے ، بیمار ہیں ۔ دن چڑھ چکا تھا ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سوارہوکر ان کے پاس تشریف لے گئے ۔ اتنے میں جمعہ کا وقت قریب ہوگیا اور وہ جمعہ کی نماز ( مجبوراً ) نہ پڑھ سکے ۔
تشریح : اس طویل حدیث میں جن دس آ دمیوں کا ذکر ہے، ان میں سات کے نام یہ ہیں ۔ مر ثد غنوی ، خالد بن بکیر ، خبیب بن عدی ، زید بن دثنہ، عبد اللہ بن طارق، معتب بن عبید رضی اللہ عنہم ان کے امیر عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ تھے ۔ باقی تینوں کے نام مذکور نہیں ہیں ۔ راستے میں کفار بنو لحیان ان کے پیچھے لگ گئے ۔ آخر ان کو پالیا اور ان میں سے سردار سمیت سات مسلمانوں کو ان کافروں نے شہید کر دیا اور تین مسلمانوں کو گرفتار کر لیا ، جن کے نام یہ ہیں، خبیب بن عدی، زید بن دثنہ اور عبد اللہ بن طارق رضی اللہ عنہم ۔ راستے میں حضرت حضرت عبد اللہ کو بھی شہید کر دیا اور پچھلے دو کو مکہ میں لے جاکر غلام بناکر فروخت کر دیا ۔ زید بن دثنہ رضی اللہ عنہ کو صفوان بن امیہ نے خریدا اور حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کو حارث بن عامر کے بیٹوں نے ۔ خبیب رضی اللہ عنہ نے بدر کے دن حارث مذکور کو قتل کیا تھا۔ اب ا س کے بیٹوں نے مفت میں بدلہ لینے کی غرض سے حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کو خرید لیا اورپر حرمت کے مہینے کو گزار کر ان کو شہید کرڈالنے کا فیصلہ کر لیا ان ایام میں حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کے کرا مات کو ان لوگوں نے دیکھا کہ بے موسم کے پھل اللہ تعالی غیب سے ان کو کھلا رہا ہے جیسے حضرت مریم علیہا السلام کو بے موسم کے پھل ملا کرتے تھے ۔ آخری دنوں میں شہادت کی تیاری کے واسطے صفائی ستھرائی حاصل کر نے کے لیے حضرت خبیب رضی اللہ عنہ نے ان کی ایک لڑکی سے استرہ مانگا مگر جب کہ ان کا ایک شیر خوار بچہ حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کے پاس جاکر کھیلنے لگا تو اس عورت کو خطرہ ہوا کہ شاید خبیب رضی اللہ عنہ اس استرہ سے اس معصوم بچے کو ذبح نہ کر ڈالیں جس پر حضرت خبیب رضی اللہ عنہ نے خود بڑھ کر اس عورت کو اطمینان د لا یا کہ ایک سچے مسلمان سے ایسا قتل ناحق ہو نانا ممکن ہے۔ آ خر میں دو رکعت نماز کے بعد جب ان کو قتل گاہ میں لایا گیا تو انہوں نے یہ اشعار پڑھے جنکا یہاں ذکر موجود ہے ۔ حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم نے ان شعروں کا شعروں ہی میں ترجمہ کیا ہے۔ جب مسلماں ہو کے دنیا سے چلوں مجھ کو کیا غم کون سی کرو ٹ گروں میر ا مر نا ہے خدا کی ذات میں وہ اگر چا ہے نہ ہوں گا میں زبوں تن جو ٹکڑے ٹکڑے اب ہو جا ئے گا اس کے جوڑوں پر وہ برکت دے فزوں بیہقی نے روایت کی ہے کہ خبیب رضی اللہ عنہ نے مرتے وقت دعا کی تھی کہ یا اللہ ! ہما رے حال کی خبر اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچا دے ۔ اسی وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ ئے اور سارے حالات کی خبر دے دی ۔ روایت کے آ خر میں دو بدری صحابیوں کا ذکر ہے جس سے دمیا طی کا رد ہوا۔ جس نے ان ہردو کے بدری ہونے کا انکار کیا ہے۔ اثبات نفی پر مقدم ہے ۔ یہ مضمون ایک حدیث کا ٹکڑا ہے جسے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے غزوئہ تبوک میں ذکر کیا ہے۔ اس طویل حدیث میں جن دس آ دمیوں کا ذکر ہے، ان میں سات کے نام یہ ہیں ۔ مر ثد غنوی ، خالد بن بکیر ، خبیب بن عدی ، زید بن دثنہ، عبد اللہ بن طارق، معتب بن عبید رضی اللہ عنہم ان کے امیر عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ تھے ۔ باقی تینوں کے نام مذکور نہیں ہیں ۔ راستے میں کفار بنو لحیان ان کے پیچھے لگ گئے ۔ آخر ان کو پالیا اور ان میں سے سردار سمیت سات مسلمانوں کو ان کافروں نے شہید کر دیا اور تین مسلمانوں کو گرفتار کر لیا ، جن کے نام یہ ہیں، خبیب بن عدی، زید بن دثنہ اور عبد اللہ بن طارق رضی اللہ عنہم ۔ راستے میں حضرت حضرت عبد اللہ کو بھی شہید کر دیا اور پچھلے دو کو مکہ میں لے جاکر غلام بناکر فروخت کر دیا ۔ زید بن دثنہ رضی اللہ عنہ کو صفوان بن امیہ نے خریدا اور حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کو حارث بن عامر کے بیٹوں نے ۔ خبیب رضی اللہ عنہ نے بدر کے دن حارث مذکور کو قتل کیا تھا۔ اب ا س کے بیٹوں نے مفت میں بدلہ لینے کی غرض سے حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کو خرید لیا اورپر حرمت کے مہینے کو گزار کر ان کو شہید کرڈالنے کا فیصلہ کر لیا ان ایام میں حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کے کرا مات کو ان لوگوں نے دیکھا کہ بے موسم کے پھل اللہ تعالی غیب سے ان کو کھلا رہا ہے جیسے حضرت مریم علیہا السلام کو بے موسم کے پھل ملا کرتے تھے ۔ آخری دنوں میں شہادت کی تیاری کے واسطے صفائی ستھرائی حاصل کر نے کے لیے حضرت خبیب رضی اللہ عنہ نے ان کی ایک لڑکی سے استرہ مانگا مگر جب کہ ان کا ایک شیر خوار بچہ حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کے پاس جاکر کھیلنے لگا تو اس عورت کو خطرہ ہوا کہ شاید خبیب رضی اللہ عنہ اس استرہ سے اس معصوم بچے کو ذبح نہ کر ڈالیں جس پر حضرت خبیب رضی اللہ عنہ نے خود بڑھ کر اس عورت کو اطمینان د لا یا کہ ایک سچے مسلمان سے ایسا قتل ناحق ہو نانا ممکن ہے۔ آ خر میں دو رکعت نماز کے بعد جب ان کو قتل گاہ میں لایا گیا تو انہوں نے یہ اشعار پڑھے جنکا یہاں ذکر موجود ہے ۔ حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم نے ان شعروں کا شعروں ہی میں ترجمہ کیا ہے۔ جب مسلماں ہو کے دنیا سے چلوں مجھ کو کیا غم کون سی کرو ٹ گروں میر ا مر نا ہے خدا کی ذات میں وہ اگر چا ہے نہ ہوں گا میں زبوں تن جو ٹکڑے ٹکڑے اب ہو جا ئے گا اس کے جوڑوں پر وہ برکت دے فزوں بیہقی نے روایت کی ہے کہ خبیب رضی اللہ عنہ نے مرتے وقت دعا کی تھی کہ یا اللہ ! ہما رے حال کی خبر اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچا دے ۔ اسی وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ ئے اور سارے حالات کی خبر دے دی ۔ روایت کے آ خر میں دو بدری صحابیوں کا ذکر ہے جس سے دمیا طی کا رد ہوا۔ جس نے ان ہردو کے بدری ہونے کا انکار کیا ہے۔ اثبات نفی پر مقدم ہے ۔ یہ مضمون ایک حدیث کا ٹکڑا ہے جسے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے غزوئہ تبوک میں ذکر کیا ہے۔