‌صحيح البخاري - حدیث 3980

كِتَابُ المَغَازِي بَابُ قَتْلِ أَبِي جَهْلٍ صحيح حدثني عثمان، حدثنا عبدة، عن هشام، عن أبيه، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال وقف النبي صلى الله عليه وسلم على قليب بدر فقال ‏{‏هل وجدتم ما وعد ربكم حقا ثم قال إنهم الآن يسمعون ما أقول‏}‏

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3980

کتاب: غزوات کے بیان میں باب: ( بدر کے دن ) ابوجہل کا قتل ہونا مجھ سے عثمان نے بیان کیا‘ ہم سے عبدہ نے بیان کیا‘ان سے ہشام نے‘ان سے ان کے والد نے اوران سے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے کنویں پر کھڑے ہوکر فرمایا‘ کیا جو کچھ تمہارے رب نے تمہارے لیے وعدہ کر رکھا تھا ‘ اسے تم نے سچا پالیا ؟ پھرآپ نے فر مایا ‘ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں یہ اب بھی اسے سن رہے ہیں ۔ اس حدیث کا ذکر جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے کیا گیا توانہوں نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ انہوں نے اب جان لیا ہو گا کہ جو کچھ میں نے ان سے کہا تھا وہ حق تھا ۔ اس کے بعد انہوں نے آیت ” بے شک آپ ان مردوں کو نہیں سنا سکتے “ پوری پڑھی ۔
تشریح : قرآنی آیت صریح دلیل ہے کہ آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔ یہی حق ہے۔ مقتولین بدر کو سنانا وقتی طور پر خصوصیات رسالت میں سے تھا۔ اس پر دوسرے مردوں کو قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں ‘ اللہ تعالی جب چاہے اور جس قدر چاہے مردوں کو سنا سکتا ہے۔ جیسا کہ قبرستان میں السلام علیکم اہل الدیار حدیث کی مسنون دعاءسے ظاہر ہے۔ باقی اہل بدعت کا یہ خیال کہ وہ جب بھی مدفون باباؤں کی قبریں پوجنے جائیں وہ بابا ان کی فریاد سنتے اور حا جات پوری کرتے ہیں‘ سراسر باطل اور کافرانہ ومشرکانہ خیال ہے جس کی شرعاً کو ئی اصل نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہر دو کے خیالات پر مزید تفصیل کے لیے فتح الباری کامطالعہ کیا جائے۔ قرآنی آیت صریح دلیل ہے کہ آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔ یہی حق ہے۔ مقتولین بدر کو سنانا وقتی طور پر خصوصیات رسالت میں سے تھا۔ اس پر دوسرے مردوں کو قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں ‘ اللہ تعالی جب چاہے اور جس قدر چاہے مردوں کو سنا سکتا ہے۔ جیسا کہ قبرستان میں السلام علیکم اہل الدیار حدیث کی مسنون دعاءسے ظاہر ہے۔ باقی اہل بدعت کا یہ خیال کہ وہ جب بھی مدفون باباؤں کی قبریں پوجنے جائیں وہ بابا ان کی فریاد سنتے اور حا جات پوری کرتے ہیں‘ سراسر باطل اور کافرانہ ومشرکانہ خیال ہے جس کی شرعاً کو ئی اصل نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہر دو کے خیالات پر مزید تفصیل کے لیے فتح الباری کامطالعہ کیا جائے۔